افغان اسکولوں کو فوجی اڈے بنایا جا رہا ہے، ہیومن رائٹس واچ
17 اگست 2016ہیومن رائٹس واچ کی آج شائع ہوئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان صوبے بغلان کے چند دیہاتوں میں بچوں کے اسکولوں کی عمارتوں کو آرمی اپنے کیمپوں کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اِس عمل میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور ان دیہاتوں میں صرف یہی مضبوط عمارتیں ہیں جنہیں افغان فورسز طالبان کے خلاف کارروائیوں میں استعمال کر رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ بغلان میں کم از کم بارہ اسکول فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوئے ہیں جس سے ان اسکولوں پر جوابی حملوں کا خدشہ ہے اور اس طرح ان میں موجود اساتذہ اور بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسا کرنے سے افغانستان میں بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کا حق بری طرح پامال ہوا ہے اور ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بچے تعلیم کے حصول سے محروم ہو گئے ہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان بھر میں قریب آٹھ ملین طلبہ اور طالبات اسکولوں میں رجسٹر ہیں۔ صوبہ بغلان افغانستان کے سب سے زیادہ شورش زدہ صوبوں میں سے ایک ہے جس کے کئی ایک اضلاع یا تو طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور یا پھر وہاں عسکریت پسندوں کے ساتھ جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے افغان حکومت اور افغان سیکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا ہے کہ اسکول کی عمارتوں کا فوجی اڈوں کے طور پر استعمال بند کیا جائے اور اس حوالے سے مناسب اقدام اٹھائے جائیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے ادارے نے طالبان سے بھی اسکولوں پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔