پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے اقوام متحدہ نے دفاتر قائم کر دیے ہیں۔ کئی افغان مہاجرین اپنے ملک میں امن مذاکرات کی بحالی کی امید پر واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اشتہار
پاکستان سے رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانیوالے افغان مہاجرین کیلئے اقوام متحدہ کے دو مراکز کھول دیئے گئے ہیں۔ یہ دونوں مراکز پیر اور منگل کے روز کھلے رہیں گے اور اس دوران اقوام متحدہ کے رجسٹرڈ افغان مہاجرین واپسی کیلئے درخواستی جمع کرا سکیں گے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کا پروگرام سالِ رواں کے مہینے مارچ میں کورونا وبا کی وجہ سے بند کیا گیا تھا، تاہم پانچ کی بحالی کے بعد رضاکارانہ واپسی کیلئے ان مراکز میں آنیوالے والے مہاجرین کو ایس او پیز پر سختی سے عمل درامد کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
افغان مہاجرین کو ہدایت کی گئی کہ کورونا وائرس سے متاثرہ یا اسکے زیر اثر افراد مراکز میں نہ ائیں۔ اس کے علاوہ تمام افراد کا کورونا ٹسٹ بھی کیا جائے گا۔ اسی طرح انہیں ہدایت کی گئی کہ مراکز میں انیوالے ماسک پہن کر آئیں، ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ سینیٹائزر کا استعمال اور سماجی دوری کا بھی خاص خیال رکھیں۔ رضاکارانہ واپسی کیلئےخیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں اضا خیل اور بلوچستان میں بلبلی کے مقام پر واقع مراکز نے رجسٹریشن کا عمل شروع کردیا ہے۔
ڈی ڈبلیو نے یو این ایچ سی ار کے ترجمان قیصر آفریدی سے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا، ''ابتدائی طور پر ایس او پیز کے ساتھ دو مراکز کھولے ہیں جو لوگ اپنی مرضی سے واپس جانا چاہتے ہیں وہ پیر اور منگل کو ان مراکزمیں رجسٹریشن کے لئے آ سکتے ہیں، ان مراکز میں صرف رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو آنے کی اجازت ہے۔‘‘ قیصر آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ واپس جانے والے افغان شہریوں کو فارمز دیئے جائیں گے اور ابتدائی ضروریات کے لئے ڈھائی سو ڈالر فی کس بھی دیے جایہں گے۔ یہ ادائیگی انہیں افغانستان میں یو این ایچ سی ار کے ان کیش منٹ سینٹر میں کی جائیگی جو ننگرہار، کابل اور قندھار میں واقع ہیں۔ یہی مراکز پیر سے جمعرات تک کھلے رہیں گے۔
پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں کمی اور افغانستان میں صلح اور قیام امن کیلئے جاری بات چیت میں پیش رفت کی وجہ سے بھی زیادہ تر افغان مہاجرین واپس جارہے ہیں۔ پاکستان اور باالخصوص خیبر پختونخوا میں قیام پذیر زیادہ تر افغان مہاجرین کاروبار سے وابستہ ہیں یا پھر روزمرہ کی مزدوری کرتے ہیں۔ کورونا وبا کی وجہ سے جہاں پانچ ماہ تک کاروبار بری طرح متاثر ہوئے ہیں، وہاں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے گھروں میں نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔
پشاور میں ’کارخانو مارکیٹ‘ کے افغان دکاندار پریشان کیوں؟
پاکستان میں کئی عشروں سے مقیم افغان مہاجرین کی اکثریت خیبر پختون خوا صوبے میں مقیم ہے جو اپنی گزر بسر کے لیے کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ان مہاجرین کو خدشہ ہے کہ اگر انہیں وطن واپس بھیجا گیا تو وہاں گزارا کیسے ہو گا۔
تصویر: DW/F. Khan
کاروبار پر پابندی نہیں
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مشہور مارکیٹ،’کارخانو بازار‘ میں ایک افغان مہاجر کھجور بیچ رہا ہے۔ پاکستان میں ان افغان مہاجرین پر اپنا کاروبار کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
سرمایہ ڈوب جائے گا
پشاور میں رہنے والے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہاں کاروبار میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اگر انہیں واپس وطن بھیجا جاتا ہے تو ایک تو اُن کا سرمایہ ڈوب جائے گا دوسرے افغانستان میں بزنس کے لیے حالات ساز گار بھی نہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
کپڑوں کا کاروبار
پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں رہائش پذیر زیادہ تر افغان مہاجرین کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
بناؤ سنگھار کی چیزیں
کپڑوں کے بزنس کے علاوہ پشاور کے رہائشی مہاجرین خواتین کے بناؤ سنگھار کی اشیاء بھی بیچتے ہیں۔ اب جبکہ ملکی وفاقی کابینہ کے فیصلے کی رُو سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں دو دن باقی رہ گئے ہیں، یہ مہاجرین مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
فٹ پاتھ پر دوکان
پشاور کے بورڈ بازار اور کارخانو مارکیٹ میں افغان مہاجرین نے نہ صرف بڑی دکانیں ڈال رکھی ہیں بلکہ زیادہ سرمایہ نہ رکھنے والوں نے فٹ پاتھ پر بھی اپنا سامانِ فروخت سجایا ہوا ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
شادی کا سامان
ہت سے افغان باشندے سرحد پار کر کے شادی بیاہ کے کپڑوں اور دیگر سامان کی خریداری کے لیے بھی پشاور کی کارخانو مارکیٹ کا رُخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
پولیس سے نالاں
فٹ پاتھ پر اپنی دکان سجانے والے کئی دکانداروں کو شکایت ہے کہ پولیس انہیں تنگ کرتی ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
7 تصاویر1 | 7
پشاور میں کپڑے کے کاروبار سے منسلک افغان مجید اللہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ لویہ جرگہ کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی کے اعلان سے افغان مہاجرین پرامید ہیں کہ اب امن آئے گا۔
گذشتہ روز افغان لویہ جرگہ نے افغانستان میں امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ختم کرتے ہوئے سنگین مقدمات میں گرفتار چار سو افغان طالبان کی رہائی کی منظوری دی ہے ۔ اس اعلان سے افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔