افغان امن مذاکرات: تیسرا دور کل شروع ہو گا
5 فروری 2016افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کا یہ تیسرا راؤنڈ ہے۔ اِس سے قبل ہونے والے دو راؤنڈ بظاہر بےنتیجہ خیال کیے گئے تھے۔ اس مذاکراتی سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کو بحال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ افغان طالبان کی اعلیٰ ترین قیادت پاکستان ہی میں کسی مقام پر اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے ہے۔ اِس تناظر میں عالمی برادری کا خیال ہے کہ امن مذاکرات کی بحالی کے سلسلے میں اسلام آباد حکومت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے سینیئر رکن عبدل الحکیم مجاہد کا کہنا ہے کہ افغان امن مذاکراتی عمل کی بحالی کے امکانات کافی زیادہ ہیں کیونکہ اس عمل میں امریکا اور چین شامل بھی ہیں اور وہ اپنا اثر و رسوخ بھی استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ عبدالحکیم مجاہد کا خیال ہے کہ امریکا اور چین، دونوں اسلام آباد اور کابل کی حکومتوں پر جو اثر رکھتے ہیں، وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور خاص طور پر پاکستان پر امریکا اور چین کا دباؤ بڑھا سکتے ہیں کہ وہ مسلح عسکریت پسندوں کی قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مؤثر کردار ادا کرے۔
یہ امر اہم ہے کہ ملا اختر منصور کی قیادت کے خلاف ملا محمد رسول کی سربراہی میں بغاوت کرنے والے طالبان اپنے اندرونی لڑائی جھگڑے ختم کر کے ایک مرتبہ پھر متحد ہونے لگے ہیں۔ ملا رسول کے قریبی ساتھی اور اہم طالبان کمانڈر عبد الرؤف کا کہنا ہے کہ وہ سب ملا اختر منصور کے خلاف کھڑے ہوئے تھے لیکن اب ایک ایک کر کے واپس اُن کی اطاعت میں بغیر کسی پیشگی شرط کے جمع ہونے لگے ہیں۔ طالبان کے مرحوم لیڈر ملا عمر کے بھائی اور بیٹے نے بھی ملا اختر منصور کی مخالفت ترک کر دی ہے۔ طالبان کمانڈر عبدالرؤف کے مطابق عبدالقیوم ذاکر بھی ملا رسول کے وفاداروں عبداللہ جان اور نیاز محمد کے ہمراہ واپس طالبان کے مرکزی گروپ میں لوٹ آئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے سیاسی معاملات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار نذر محمد مطمئن کا کہنا ہے کہ طالبان کے اندرونی دھڑوں میں اختلافات میں بتدریج کمی اور یونٹی کے عمل سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور اِس سلسلے میں انہیں مذاکرات میں لایا جانا مناسب اور وقت کی ضرورت ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران افغان طالبان نے کئی اضلاع میں حکومتی فوج پر دباؤ بڑھا رکھا ہے۔ خاص طور پر ہلمند کے کئی مقامات پر طالبان کی چڑھائی نے کابل حکومت کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مغربی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ طالبان کی قیادت کمزور ہو سکتی ہے لیکن اُن کی تحریک بہت مضبوط ہے۔