افغان امن کے لیے ماسکو میں اجلاس، کابل حکومت لاتعلق
27 دسمبر 2016یہ مشاورت ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے، جب داعش شام میں پسپا ہو رہی ہے لیکن افغانستان و پاکستان میں اس کی موثر موجودگی کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ اس شدت پسند تنظیم نے حالیہ مہنیوں میں پاکستان و افغانستان میں ہونے والی متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
تاہم اس مسئلے کے سب سے اہم فریق یعنی افغان حکومت اس مشاورتی عمل پر چراغ پا ہے اور وجہ یہ ہے کہ کابل حکومت کو اس اجلاس میں شریک ہونے کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ افغانستانی ٹیلی وژن طلوع نیوز کے مطابق افغان اراکینِ پارلیمنٹ نے اس مشاورتی عمل پر ردعمل دیتے ہوئے، اسے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ پیر کو افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان احمد مستغنی نے ایک بیان میں اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’افغانستان کے بغیر شروع کئے جانے والے اس مشاورتی عمل نے افغان عوام کے لئے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ اس اجلاس کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور ہم متعلقہ فریقین سے اس کی وضاحت چاہتے ہیں۔‘‘
دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان مسئلے کے دوسرے اہم فریق یعنی افغان طالبان بھی اس مشاورتی عمل سے دور ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، ’’پاکستان یا کسی اور ملک نے ہم سے اس اجلاس کے انعقاد کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی مشاورت کی۔‘‘
اس سوال پر کہ کیا ان کا روس، چین اور خطے کے دیگر ممالک سے حالیہ مہینوں میں کوئی رابطہ ہوا، ذبیح اللہ نے کہا، ’’روس، چین اور ایران کو خطے میں امریکا کی موجودگی پر تشویش ہے۔ ماضی میں ان ممالک سے اس تشویش پر بات ہوئی ہے۔ تاہم حالیہ مہینوں میں اس مسئلے پر ان سے بات چیت نہیں ہوئی۔ ممکن ہے روس، چین اور پاکستان اسی مسئلے پر بات چیت کرنے کے لئے یہ اجلاس منعقدکر رہے ہوں۔ اگر امریکا کی موجودگی کے خلاف کوئی خطے کے ممالک کا اتحاد بنتا ہے تو ہم اسے مثبت سمجھیں گے۔‘‘
اس سوال پر کہ کیا روس افغانستان میں داعش کی موجودگی سے پریشان ہے، افغان طالبان کے ترجمان نے کہا، ’’داعش کی موجودگی افغانستان میں بہت محدود ہے اور یہ صرف ملک کے مشرقی علاقوں میں ہے۔ ایک دو دھماکے سے داعش یہاں مضبوط نہیں ہوگی۔ میرے خیال میں خطے کے ممالک کو امریکی موجودگی پر تشویش ہے اور وہ اسی پر بات چیت کے لئے جمع ہوئے ہیں۔‘‘
تاہم تجزیہ نگاروں کے خیال میں افغان حکومت اور طالبان کو دعوت نہ دینا ایک دانش مدانہ فیصلہ ہے۔ نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے ادارہ برائے بین الاقوامی امن و استحکام کے ڈاکڑ بکر نجم الدین کے مطابق، ’’روس نے حال ہی میں شام کے مسئلے پر ایک اجلاس بلایا، جس میں شام کو دعوت نہیں دی گئی بلکہ ترکی اور ایران اس اجلاس میں شامل کئے گئے۔ اگر روس کابل حکومت کو دعوت دیتا تو اسلام آباد ناراض ہوجاتا اور اگر افغان طالبان کو دعوت دی جاتی تو اشرف غنی کی حکومت چراغ پا ہو جاتی۔ میرے خیال میں روس، پاکستان اور چین پہلے سازگار ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد وہ ان دونوں فریقوں کو بھی ایک ساتھ بٹھائیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’افغانستان میں داعش کا اتنا خطرہ نہیں۔ ان کی موجودگی محدود ہے۔ بات یہ ہے کہ اب امریکا دنیا کا پولیس مین نہیں رہا۔ روس اپنی قائدانہ طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے۔ چین نے افغانستان میں بہت سرمایہ کاری کہ ہے جب کہ پاکستان افغانستان میں استحکام کو سی پیک کے لئے بہت اہم سمجھتا ہے۔ اس لئے یہ تینوں ممالک کوششیں کر رہے ہیں کہ خطے میں استحکام آئے۔‘‘
سابق وفاقی وزیرِ ماحولیات اور وزیرِ اعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی مشاہد اللہ خان نے اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں بہت نقصان اٹھایا لیکن امریکا نے ہمیں صلہ دینے کے بجائے ہمیں دہشت گرد ملک بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ سپر طاقت تو وہاں استحکام نہیں لا سکی۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ اب خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کی کوششیں کی جائیں کیوں کہ خطے کا امن افغانستان کے استحکام سے مشروط ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کی مدد کر رہے ہیں جب کہ امریکا خود طالبان کا قطر میں دفتر کھلواتا ہے۔ ہم نے پاکستان میں ضرب عضب کی بدولت امن قائم کر لیا لیکن امریکا کابل میں بیٹھ کر اس ملک میں استحکام کیوں نہیں لا سکا۔ امریکا وہاں امن لانے میں ناکام ہوگیا ہے۔ لہذا پاکستان اب دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کر کے امن لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس کا افغانستان میں آج بھی بہت اثر ورسوخ ہے جب کہ چین نے بھی خاموش سفارت کاری سے اس ملک میں اپنے لئے ایک جگہ بنائی ہے۔ تو اس طرح کے مشاورتی اجلاس افغان امن کے لئے معاون ثابت ہوں گے۔‘‘