افغان جنگ: سی آئی اے فوجی کمانڈروں سے مشاورت پر آمادہ
15 اکتوبر 2011افغانستان میں عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف جاری امریکی جنگ میں سی آئی اے اب فوجی کمانڈروں کی رائے کو اپنے لائحہ عمل کی تشکیل کے ابتدائی حصے میں ہی شامل کرے گی تاکہ اس جنگ کو مؤثر طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔
CIA کی اس تازہ حکمت عملی کو ادارے کے سینئر حکام نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ خیال رہے کہ سی آئی کے نئے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس افغانستان میں امریکی افواج کے سربراہ رہ چکے ہیں اور جنرل ریٹائرڈ پیٹریاس کی افغان جنگ کے حوالے سے کارکردگی کو سی آئی اے نے کچھ زیادہ نہیں سراہا تھا۔ مبصرین کے مطابق اب پیٹریاس افغان جنگ کے حوالے سے سی آئی اے اور امریکی افواج کے درمیان ہم آہنگی چاہتے ہیں۔
تاہم سی آئی کی نئی حکمت عملی پیٹریاس کے سی آئی اے کا ڈائریکٹر بننے سے پہلے کی بات ہے۔ فوج سے زیادہ مشاورت کی درخواست افغانستان میں امریکی افواج کے موجودہ کمانڈر جنرل جان ایلن نے کی تھی، جسے پیٹریاس کی طرف سے ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل موریل نے منظور کر لیا تھا۔
جمعے کے روز موریل نے خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ہماری حکمت عملی اور تجزیہ کاری میں بہتری آئے گی۔‘‘
مبصرین کے مطابق موریل کی کوشش ہے کہ وہ افغان جنگ کے حوالے سے امریکی انٹیلیجنس اداروں میں پائے جانے والے بعض منفی تاثرات اور افغانستان میں امریکی کمانڈروں کے مثبت تجزیوں کو یکجا کر سکیں۔
نئی حکمت عملی کا اثر سی آئی اے کے افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے سالانہ جائزے پر بھی پڑے گا۔ قبل ازیں اس جائزے کو تیار کر کے کابل میں سینئر فوجی حکام کے حوالے کیا جاتا تھا، جو اپنے ماتحتوں کی رائے اس میں شامل کرتے تھے۔ اب سی آئی اے کے تجزیہ کار اپنے ابتدائی جائزے ہی افغانستان میں فوجی کمانڈروں کے سامنے پیش کیا کریں گے، جن کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ یہ نشاندہی کر سکیں کہ ان جائزوں میں کیا کمی بیشی رہ گئی ہے۔ اس کے بعد سی آئی اے ایسی رپورٹوں میں تبدیلی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ خود کرے گی۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک