افغان جنگ کا اختتامی مرحلہ، امریکی نظریں پاکستانی سرحد پر
10 جولائی 2011خبرایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ پاکستان کے ساتھ افغان سرحدی علاقہ وہ جگہ ہے، جہاں ممکنہ طور پرغیر ملکی دستے دو ہزار چودہ تک اپنا مشن جاری رکھیں گے۔ افغانستان میں نیٹو کی فوجوں کو یہ ڈیڈ لائن دی جا چکی ہے کہ انہیں اس ملک میں اپنا جنگی مشن تین سال کے اندر اندر ختم کرنا ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ افغانستان کے جنوبی صوبوں قندھار اور ہلمند میں اتحادی فوجوں نے طالبان باغیوں کے خلاف جو بڑے آپریشن کیے ہیں، اس کے نتیجے میں اس جنگ کا رخ بدل گیا ہے۔ فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی نے خوست سے اپنے اس تجزیے میں لکھا ہے کہ افغانستان کا مشرقی حصہ اب امریکی فوج کی نئی ترجیح بن چکا ہے۔
فوجی حکمت عملی کے امریکی ماہراب ایسے راستے تلاش کررہے ہیں جن پر چلتے ہوئے عسکریت پسند گروپوں کی کارروائیوں کو محدود کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر طالبان، القاعدہ اورالقاعدہ سے تعلق رکھنے والے حقانی نیٹ ورک کا نام لیا جاتا ہے، جن کے عسکریت پسندوں نے سرحدی علاقوں میں اپنے مرکز قائم کر رکھے ہیں۔
امریکہ اس سال موسم گرما کے اختتام تک افغانستان سے اپنے 33 ہزارفوجی واپس بلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی مشرقی افغان صوبے خوست میں وہ اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ بھی کر رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکی فوجی ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں دس سالہ جنگ جیتنے کے لیے اب اس لڑائی کو اپنے دشمنوں تک لے جانا چاہتے ہیں۔
خوست میں امریکی فوج کی ایک جنگی پوسٹ کے انچارج اٹھائیس سالہ کپتان ٹاپل مین کے مطابق اس علاقے میں امریکہ کے خصوصی فوجی دستے ہر ہفتے زیادہ تر راتیں اپنے دشمنوں کے ٹھکانوں کی تلاش میں گزارتے ہیں۔
اس امریکی افسر کے مطابق افغانستان کے اس علاقے میں وہ زیادہ جارحیت پسندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اس رویے کا مقصد طالبان اور القاعدہ کے باغیوں تک پہنچ کر انہیں ناکام بنانا ہے۔
اس طرح افغانستان میں اتحادی فوجوں کے زیر اثرمحفوظ علاقوں کو وسعت دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کی رفتار اور اس کے حجم پر بہت سے امریکی ماہرین تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ہرحال میں افغانستان میں اپنے اتنے فوجی رکھنا ہوں گے کہ زیادہ سے زیادہ کامیابی کے ساتھ ساتھ مشرقی افغانستان میں عسکری فتح کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: عاطف بلوچ