1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان جنگ کی حکمت عملی تبدیل کرنے کا فیصلہ

17 جولائی 2010

افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف اعلیٰ امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے بنیادی حکمت عملی تبدیل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے اس نئی تبدیلی کو سراہا ہے۔

اعلیٰ امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاستصویر: AP

افغانستان میں انتہاپسند طالبان کی بڑھتی ہوئی مزاحمت کے تناظر میں اعلیٰ امریکی فوجی کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے بنیادی جنگی حکمت عملی کو ایک نئے انداز میں شروع کرنے کے پلان کو حتمی شکل دینے کا آغاز کردیا ہے۔

اس حکمت عملی کے تحت اب جنگ کو بڑے کینوس سے مقامی سطح پر لایا جائے گا یعنی جنگ کو بڑے دائرے سے نکال کر چھوٹے حلقوں میں شروع کیا جائے گا۔ جنگی اصلاح میں اس کو ٹیکٹیکل چینج کہا جا سکتا ہے۔

اس سے مراد طالبان کے اثر والے علاقوں میں مقامی آبادی امریکی اور افغان فوج کی حمایت میں مقامی طالبان کے خلاف عملی مسلح جدو جہد میں شریک ہو گی۔ ہر گاؤں کو طالبان کے وجود سے صاف کرنے کی کوشش جنرل پیٹریاس کی حکمت عملی کا مرکزی نکتہ ہے۔

نئی جنگی حکمت عملی میں افغان پولیس کی تیاری ایک اہم مرحلہ ہوگاتصویر: AP

افغان صدر حامد کرزئی نے جنرل پیٹریاس کی نئی حکمت عملی کو استحسانی نگاہوں سے دیکھا ہے۔ بنیادی طور پر یہ پلان جنرل پیٹریاس کے پیش رو جنرل سٹینلے میک کرسٹل کی تخلیق تھی لیکن اس کو عملی صورت جنرل پیٹریاس دے رہے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ انتہائی نازک طریقہٴ جنگ ہو سکتا ہے۔ اس میں افغان حکومت اور نیٹو کمانڈ کو مقامی سطح پر مضبوط جنگی گروپوں کی تشکیل دینا ہو گی اور یہ بھی طے نہیں کہ یہ تربیت یافتہ جنگی گروپ اسلحے کے حصول کے بعد اپنی وفاداریاں نہیں تبدیل کریں گے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر یہ ٹیکٹیکل پلان کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے طالبان کو ان کے مقامی مضبوط اڈوں میں شکست دی جا سکے گی اور ناکامی کی صورت میں افغانستان میں طالبان کو مزید تربیت یافتہ وفادار اور جنگجو دستیاب ہو جائیں گے۔ افغان صورت حال کے ماہرین کا خیال ہے کہ نو سالہ جاری جنگ میں یہ ایک بہت ہی بڑی سٹرٹیجیک تبدیلی رونما ہونے جا رہی ہے۔

مقامی سطح پر طالبان کے خلاف شروع کی جانے والی جنگی کارروائی کو افغان وزارت داخلہ کنٹرول کرے گی۔ اس بات پر جنرل پیٹریاس اور افغان صدر متفق ہیں۔ اس تبدیلی کے حوالے سے طالبان کے گڑھ ہلمند میں امریکی میرینز کے میجر رچرڈ ملز کا کہنا ہے کہ وہ اس پر حیران ہیں کہ مقامی سطح پر طالبان کے خلاف عوام کے اندر مخالفت کا جذبہ بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔

ملز کے مطابق اس کی وجہ طًالبان مسلح افراد کا زبردستی ٹیکس یا بھتہ وصول کرنا اہم ہونے کے ساتھ ان کی رات کے وقت غیر ضروری کارروائیاں بھی عوام کے اندر مخالفانہ جذبات کو ہوا دے رہی ہیں۔ ملز کے مطابق نئی حکمت عملی میں ان عوامی جذبات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

افغان صدر حامد کرزئی نے جنگی حمکت عملی تبدیل کرنے کو سراہا ہےتصویر: PA/dpa

دوسری جانب امریکی فوجی کمان افغانستان کی قومی سکیورٹی فورسز کے اندر جنگی جذبے کی کمی کا بھی احساس رکھتی ہے۔ ملکی سلامتی کے لئے اس فوج کے اندر ایک بڑے کردار کی ضرورت بہت آہستگی سے اثر کر رہی ہے۔ سردست مغربی طاقتیں ایک لاکھ تیس ہزار افراد پر مشتمل افغان فوج اور ایک لاکھ کے قریب افغان پولیس کو ملک کے تحفظ اور ان کے فرائض سے آگہی کے ساتھ تربیت کو خاصا اہم خیال کرتی ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں