افغان جنگ کی نجکاری کی تجویز کابل حکومت نے مسترد کر دی
5 اکتوبر 2018
افغانستان میں جاری جنگ کی نجکاری کی تجویز پر افغان حکومت نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ اس تجویز کے مطابق ایک پرائیویٹ کمپنی کے فوجی کنٹریکٹرز کو افغان فوج کی تربیت و مشاورت کے لیے استعمال کیا جانا ہے۔
اشتہار
افغان حکام کی جانب سے ملک میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری جنگ کے بعض پہلووں کو پرائیویٹ کمپنیوں کو دینے پر برہمی پائی گئی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے بھی اس حوالے سے کہا ہے کہ ایسا کسی صورت ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ انتہائی تباہ کن ہو سکتا ہے۔
افغان صدر کے قومی سلامتی کے مشیر نے بھی ان تجاویز کو ناقابل بحث و گفتگو قرار دیا ہے۔ مشیر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ کسی بھی صورت میں افغان حکومت اور عوام اس کے حق میں نہیں کہ ملک میں جاری جنگ کی نج کاری کر دی جائے تا کہ بعض ادارے اس عمل سے مالی منافع حاصل کر سکیں۔
اس ضمن میں نجی فوجی کنٹریکٹر کمپنی بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس کا حالیہ دورہٴ افغانستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ عراق کی جنگ کے دوران بلیک وارٹر کمپنی کو خاصی اہمیت حاصل ہوئی تھی۔ پرنس اپنی تجویز کو عملی شکل دینے کے حوالے سے گزشتہ ایک برس سے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایرک پرنس حال ہی کابل میں بھی اپنی تجویز کے حق میں راہ ہموار کرنے کی کوشش میں تھے۔ کابل میں قیام کے دوران انہوں نے کئی اہم افغان سیاستدانوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ ان کا ایک انٹرویو سب سے بڑے افغان ٹیلی وژن نیٹ ورک تولو پر بھی نشر کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے پلان کے حق میں کئی دوسرے ذرائع ابلاغ کو بھی انٹرویو دیے ہیں۔
افغان حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی فوجی مشیران کی جگہ پر پرائیویٹ کنٹریکٹرز کی تعیناتی سے کابل حکومت کے جائز اختیار پر انگلیاں اٹھنے کے ساتھ ساتھ طالبان کی جانب سے شدید تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا اور وہ واضح طور پر کہیں گے کہ افغانستان میں جاری جنگ بنیادی طور پر غیر ملکی مفاد کے تحفظ کی جنگ ہے۔
اس تجویز کے تناظر میں اشرف غنی کی حکومت کے سکیورٹی شعبے سے منسلک ایک سینیئر اہلکار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتن گفتگو کے دوران ازراہ تفنن کہا کہ اگر ایسا ہوا تو وہ بھی طالبان کی صفوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب امریکی جنگی کنٹریکٹر ایرک پرنس اپنی تجویز کو عملی شکل میں دیکھنے کی کوششوں میں ہیں۔ یہ منصوبہ گزشتہ برس امریکی صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کی تشکیل کے دوران سامنے آیا تھا۔ پرنس امریکی بحریہ کے سابقہ کمانڈو رہ چکے ہیں۔ ان کی بہن بیٹسی ڈی واس موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیر تعلیم ہیں۔
افغانستان: ’’جنگ میں زندگی‘‘
ایرانی فوٹوگرافر مجید سعیدی کی تصویریں یہ بتاتی ہیں کی جنگ نے عام افغانیوں کی زندگیوں کو کس طرح متاثر کیا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
کھلونا نہیں
یہ کوئی کھلونا نہیں ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جنوب میں دو بچیاں مصنوعی بازو سے کھیل رہی ہیں۔ اس تصویر سے ایرانی فوٹوگرافر مجید سعیدی کی تصویروں کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بہترین فوٹوگرافر
مجید سعیدی کی تصویریں خبروں کے پیچھے چھپی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ ایسی کہانیاں جو صرف خوف اور اذیتوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ سعیدی کو کئی دیگر انعامات کے علاوہ سن 2013 میں ’ورلڈ پریس فوٹو ایوارڈ‘ سے بھی نوازہ جا چکا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بچوں کی دنیا
سعیدی کی زیادہ تر تصاویر میں بچوں کی زندگی اور ان کے درپیش مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ بچہ بارودی سرنگ کے پھٹنے کی وجہ سے اپنے دونوں بازوؤں سے محروم ہو گیا تھا۔
تصویر: Majid Saeedi
واضح نشانیاں
نہ صرف چہرے اور ان پر موجود زخموں کے نشانات بلکہ افغانستان کی تباہ حال عمارتیں بھی جنگ کی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ گھروں کے کھنڈرات، ہر جگہ گولیوں کے سوراخوں اور تباہ شدہ عمارتوں سے جنگ کی تباہی عیاں ہو رہی ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
واضح تضاد
افغانستان کی خوبصورت سرزمین پر جگہ جگہ جنگ کے دوران ہونے والے تباہی بھی نمایاں ہے۔ ایک ہی جگہ پر خوبصورتی اور دل کو ہلا دینے والے خوفناک مناظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
نشے کی لت
نشے کی لت افغانستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ نوّے فیصد افیون پیدا کرنے والا ملک ہے اور یہاں نشے کے عادی افراد کی تعداد بھی اسی لحاظ سے زیادہ ہے۔ افغانستان میں نشے کی لت میں مبتلا بچوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے لیکن اقوام متحدہ کے اعداو شمار کے مطابق وہاں تین لاکھ بچے نشہ کرتے ہیں۔
تصویر: Majid Saeedi
پولیس پریڈ
کابل میں صبح سویرے پولیس پریڈ: گزشتہ کئی برسوں سے مغربی حکومتیں افغان پولیس کی تربیت کا عمل جاری رکھے ہوئی ہیں۔
تصویر: Majid Saeedi
افغان تعلیم
ایک مدرسے کے استاد سے سزا ملنے پر بچے کے چہرے پر درد دیکھا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں اسکولوں کا یکساں نظام موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر بچوں کو معاشی حالات کی وجہ سے اسکولوں میں جانے کی بجائے کام کاج پر بھیجا جاتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
تعلیمی زوال
افغانستان میں سن 1979ء سے جاری ’خانہ جنگی‘ نے وہاں کے بچوں اور نوجوانوں کی صورتحال کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 72 فیصد مردوں اور 93 فیصد خواتین کے پاس اسکول کی سند نہیں ہے۔ مجموعی طور پر اس ملک کی 70 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
برقعہ اور باربی
خواتین کے لیے مدد: ملائیشیا کی ایک غیر سرکاری تنظیم خواتین کو مقامی سطح پر گڑیا تیار کرنے کے کورسز کرواتی ہے۔ اس تربیت کا مقصد خواتین کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہیں تاکہ وہ اپنا خرچ خود اٹھا سکیں۔
تصویر: Majid Saeedi
پہلوانی کا شوق
افغانی ویٹ لفٹر ایک مقابلے کے بعد آرام کر رہا ہے۔ طالبان کے دور حکومت میں باڈی بلڈنگ جیسے کھیلوں پر سختی سے پابندی عائد تھی۔ یہ کھیل ایک مرتبہ پھر افغانستان بھر میں مقبول ہو رہا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
کھنڈرات میں فصل
گزشتہ تیس برسوں میں سویت یونین اور نیٹو افواج کی جنگ نے جگہ جگہ اپنے نشانات چھوڑے ہیں۔ افغانیوں کو روزانہ ان نشانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
لازمی مضمون قرآن
قرآن کو حفظ کرنے کے لیے انتہائی توجہ اور پرسکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ افغانستان کے جنوبی شہر میں ایک لڑکا قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے۔
تصویر: Majid Saeedi
مقبول کھیل
عوامی سطح پر جانوروں کے مقابلے افغان روایات کا لازمی جزو ہیں۔ ملک بھر میں مرغوں اور کتوں کے مقابلوں کا انعقاد کروایا جاتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بند زندگی
افغانستان میں ذہنی طور پر بیمار افراد کو غیر انسانی حالات اور معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ مغربی شہر ہرات کے ایک پاگل خانے میں مریضوں کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا گیا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
حقیقی ویرانی
اکرم کو بازوؤں کی بجائے دو مصنوعی اعضاء کا سہارا ہے۔ رات کو سوتے وقت وہ ان ’اعضاء‘ کو دیوار کے ساتھ لٹکا دیتا ہے۔ اکرم ان ہزاروں افغان بچوں میں سے ایک ہے، جن کے مقدر ایسے ہی ہیں۔ وہ مقدر جنہیں ایرانی فوٹو گرافر اپنی تصویروں کے ذریعے چہرے فراہم کر رہا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
فوٹو گرافر کا مشن
مجید سعیدی کے بقول شروع ہی سے ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ انسانی تشدد کو تصویروں کی مدد سے منظر عام پر لایا جائے۔ افغان جنگ کو موضوع بنانے کا خیال انہیں اس وقت آیا، جب وہ ریڈ کراس کے ساتھ کام کرتے ہوئے جنگ کے متاثرین سے ملے۔