اس کے علاوہ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر بھی طالبان سے ہر دوسرے ماہ گفتگو کرتے ہیں۔ نیوز ایجنسی اے پی نے ایسی دستاویزات بھی دیکھی ہیں، جن کے مطابق افغان حکام نے نہ صرف قطر بلکہ پاکستان میں بھی طالبان رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
افغان ذرائع کے مطابق ان میں سے کوئی بھی فریق عوامی سطح پر مذاکرات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن مذکورہ دستاویزات سے ان موضوعات سے متعلق معلومات ملتی ہیں، جن پر گفتگو کی گئی ہے۔ ان دستاویزات سے ایسے اشارے بھی ملتے ہیں کہ طالبان کچھ تبدیلیوں کے ساتھ افغانستان کے آئین اور انتخابات کے عمل کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaگیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpaان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpaطالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Imagesبائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaچھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpaجنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photoاکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photoاکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpawebچار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpaاکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpaانیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaاٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpaدو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Imagesجنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Imagesاٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaافغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔
تصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images ایک سینئر افغان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پراے پی کو بتایاکہ طالبان آئین میں مخصوص تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ افغانستان میں اسلامی نظام کے تحت حکمرانی کا تصور رکھتے ہیں۔ اس عہدیدار کے مطابق طالبان لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں لیکن وہ ان کے لیے علیحدہ علیحدہ اسکول اور کالج چاہتے ہیں۔
اسی طرح طالبان دفاع اور عدالتی نظام سمیت تمام شعبوں میں خواتین کے ملازمت کرنے پر راضی ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ سپریم کورٹ کی جج کوئی خاتون بنے۔
اس کے علاوہ طالبان آئینی طور پر یہ گارنٹی چاہتے ہیں کہ کسی خاتون کو ملک کا صدر نہیں بنایا جائے گا۔
ایسی خصوصی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو ان ہزاروں مقدمات کی نگرانی کرے، جن کے مطابق طاقتور اور بااثر شخصیات نے غریب لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ یہ زمینیں ان کو واپس کی جائیں، جن سے چھینی گئی تھیں۔
ایک عبوری حکومت کے قیام کے بعد انتخابات کروائے جائیں اور سابق حکومت سے وابستہ کسی بھی شخصیت کو عبوری حکومت کی انتظامیہ میں شامل ہونے کی اجازت نہ ہونے دی جائے۔
طالبان نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک انتخابات کا انعقاد نہیں ہو جاتا، فریقین اپنے اپنے زیر کنٹرول علاقے پر حکمرانی جاری رکھیں۔
دوسری جانب افغانستان کی خفیہ ایجنسی نے اس حوالے سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے لیکن اس معاملے سے وابستہ افغان عہدیداروں نے بتایا ہے کہ خفیہ ایجنسی کے سربراہ معصوم ستانکزی کی طالبان رہنما عباس ستانکزی سے تقریبا روزانہ ہی گفتگو ہوتی ہے۔ دریں اثناء افغانستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر محمد حنیف اتمر کے دفتر نے بھی طالبان کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے کوئی جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔