افغان حکومت اور طالبان کے درمیان حالیہ کچھ عرصے میں افغانستان کے کئی مقامات پر شدید جھڑپیں دیکھی گئی ہیں، تاہم یہ دونوں فریق ایک معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ کسی حد تک تعاون تک کر رہے ہیں اور وہ ہے، داعش۔
اشتہار
افغان صوبے جوزجان میں چند روز قبل ایک مقامی کمانڈر سمیت ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ڈیڑھ سو جنگجوؤں نے خود کو حکومتی فورسز کے حوالے کر دیا۔ تاہم ان جہادیوں کی شکست کا براہ راست سہرا حکومتی فورسز کے سر جانے کی بجائے اصل میں طالبان کے سر جاتا ہے۔
جوزجان کی صوبائی کونسل کے سربراہ عبدالحئی حیات نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’گزشتہ دو ماہ سے اسلامک اسٹیٹ اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپیں جاری تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ داعش کے جہادیوں کو بالآخر یہ علاقہ چھوڑنا پڑا۔ مگر اس گروہ کے افغان ارکان کے پاس حکومتی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔‘‘
طالبان نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان جھڑپوں نے شدت پسند تنظیم داعش کے 130 سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔
طالبان اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان ان جھڑپوں کا مرکز داعش کا مضبوط گڑھ سمجھا جانے والے علاقے درضب اور کُش ٹیپا کے اضلاع تھے۔ دو برس قبل یہ علاقے داعش نے طالبان سے چھینے تھے۔ حیات کے مطابق گزشتہ برس سے طالبان اس کوشش میں تھے کہ یہ اضلاع داعش سے واپس حاصل کیے جائیں۔
مقامی حکام کے مطابق ان اضلاع سے داعش کے جہادیوں کو پسپا کرنے کے لیے طالبان کے دو ہزار سے زائد جنگجوؤں نے حصہ لیا اور انہیں یہاں اسلامک اسٹیٹ کو شکست دینے میں تقریباﹰ دو ماہ لگے۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
یہ بات اہم ہے کہ سن 2014ء کے آخر میں داعش نے افغانستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا اور تبھی سے طالبان اس گروہ کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کا زیادہ اثر افغانستان کے مشرقی حصوں میں ہے اور یہیں طالبان ان کے خلاف کارروائیاں کرتے نظر آتے ہیں۔
طالبان اور داعش دونوں ہی کابل حکومت کے مخالف ہیں، تاہم قیادت، نظریات اور طریقہ ہائے کار پر دونوں گروہوں کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان کے اس سفاک تنازعے کی بنیادی وجہ تاہم افغانستان کے زیادہ علاقوں پر قبضے سے عبارت ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ افغانستان میں داعش کے مقابلے میں طالبان نہایت مسلح اور مضبوط گروہ ہے اور وہ اپنے آپ کو ملک میں ’اسلامی اپوزیشن‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا بنیادی نکتہ اعتراض یہ ہے کہ کابل حکومت کو چوں کہ مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے، اس لیے اس کا خاتمہ کر کے ملک میں ’اسلامی نظام‘ نافذ کیا جانا چاہیے۔