افغان حکومت کے طالبان سے خفیہ مذاکرات، امریکا نے تصدیق کر دی
31 مئی 2018
امریکا نے افغان حکومت کے طالبان کے اعلیٰ نمائندوں سے خفیہ مذاکرات کی تصدیق کر دی ہے۔ متعدد فضائی حملوں میں پچاس سے زائد طالبان عسکریت پسندوں کی حالیہ ہلاکت کے باوجود اس بات چیت کا موضوع افغانستان میں ممکنہ جنگ بندی ہے۔
اشتہار
واشنگٹن سے جمعرات اکتیس مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پینٹاگون کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں امریکی فوج کے متعدد فضائی حملوں میں 50 سے زائد طالبان شدت پسندوں کی ہلاکت کے باوجود کابل حکومت کے اعلیٰ اہلکاروں اور طالبان کے سرکردہ نمائندوں کے مابین صیغہ راز میں رکھی گئی اس مکالمت میں مرکزی موضوع یہی ہے کہ آیا جنگ زدہ افغانستان میں کوئی فائر بندی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
امریکی فوج کے جنرل جان نکلسن نے پینٹاگون میں مدعو کیے گئے صحافیوں کو کابل سے ایک ٹیلی کانفرنس میں بتایا، ’’(افغانستان میں) اس وقت ظاہری منظر نامے کے پیچھے مکالمت اور کافی زیادہ سفارت کاری جاری ہے۔ یہ کوششیں بیک وقت کئی مختلف سطحوں پر کی جا رہی ہیں۔‘‘
جنرل نکلسن نے کھل کر یہ تو نہیں بتایا کہ کابل حکومت کی طالبان سے اس درپردہ بات چیت میں کون کون شامل ہے تاہم انہوں نے اتنا ضرور کہا کہ اس مکالمت میں طالبان کی طرف سے درمیانے درجے سے لے کر اعلیٰ سطح تک کے نمائندے حصہ لے رہے ہیں۔
اس امریکی جنرل کے بقول اس مذاکراتی عمل کے آغاز سے قبل اطراف کے مابین ایک ابتدائی خفیہ ملاقات ہوئی تھی، جس کے بعد ہی یہ موقع مل سکا کہ اس بات چیت کو آگے بڑھایا جائے۔ ساتھ ہی جان نکلسن نے یہ بھی کہا کہ مستقبل میں کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین اس مذاکراتی عمل کی ممکنہ کامیابی کا انحصار کافی حد تک اس بات پر بھی ہو گا کہ اس ’پورے عمل کو کس حد تک خفیہ‘ رکھا جاتا ہے۔
پینٹاگون کی طرف سے اس تصدیق سے قبل اسی سال فروری میں افغان صدر اشرف غنی نے خود بھی طالبان کو امن مذاکرات کی پیشکش کر دی تھی۔ اس موقع پر غنی نے کہا تھا کہ اگر طالبان ہندوکش کی اس ریاست کے 2004ء میں منظور ہونے والے آئین کو تسلیم کرنے اور ساتھ ہی فائر بندی پر بھی تیار ہو جائیں، تو ان کے ساتھ نہ صرف بات چیت ہو سکتی ہے بلکہ ایسی مکالمت کی تکمیل پر تحریک طالبان کو ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بھی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
اشرف غنی کی اس پیشکش کا طالبان نے کوئی فوری لیکن باقاعدہ جواب تو نہیں دیا تھا لیکن گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی موسم بہار کے آغاز پر انہوں نے ملک کے مختلف صوبوں میں اپنے وہ خونریز حملے تیز تر کر دیے تھے، جنہیں طالبان ’موسم بہار کی جنگی حکمت عملی‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ حملے خاص طور پر دارالحکومت کابل میں بھی کیے گئے تھے، جو اب عام شہریوں کے لیے ملک کا خطرناک ترین شہر بن چکا ہے۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں جب تک طالبان کے خلاف کابل حکومت اور امریکا کے دستے زمینی اور فضائی حملے کرتے رہیں گے، تب تک طالبان کی قیادت سے کوئی سنجیدہ بات چیت شروع نہیں ہو سکتی۔
اس کے برعکس جنرل نکلسن، جو طالبان کو بہت زیادہ نقصانات کے ساتھ عسکری دباؤ میں لاتے ہوئے انہیں مذاکرات کی میز کا رخ کرنے پر مجبور کر دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں ’طاقت کے استعمال‘ یا ’بات چیت کے ذریعے پیش رفت‘ میں سے کسی ایک کے بجائے ’تشدد اور مکالمت‘ دونوں بیک وقت بھی دو متوازی حقیقتیں ہو سکتی ہیں۔
جنرل جان نکلسن مارچ 2016ء سے افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کے اعلیٰ ترین کمانڈر ہیں، جو ہندو کش کی اس ریاست میں امریکی فوجی مشن ’ریزولیوٹ سپورٹ‘ کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔
م م / ع ا / اے ایف پی
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.