افغان خاتون پائلٹ طالبان کے خلاف جنگ میں سرگرمِ عمل
صائمہ حیدر
7 دسمبر 2016
بچپن میں ہجرت کر کے پاکستان آنے والی کیپٹن صفیہ فیروزی افغان ایئر فورس میں پائلٹ کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ وہ ملک کی دوسری خاتون پائلٹ ہیں۔
اشتہار
کیپٹن صفیہ فیروزی اُن دیگر افغان خواتین کے لیے جہدِ مسلسل کی علامت ہیں جو افغان مسلح افواج میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ چھبیس سالہ فیروزی اپنے ہی یونٹ کے ایک پائلٹ محمد جواد نجفی کے ساتھ رشتہء ازدواج میں منسلک ہو چکی ہیں۔
فیروزی اور اُن کے شوہر کا یونٹ زمینی افواج کو مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ دونوں ایک مختصر سی افغان ایئر فورس کا حصہ ہیں جو طالبان کی شورش کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
فیروزی نے دارالحکومت کابل کے فوجی ایئر بیس پر پرواز پر جانے کی تیاری کے دوران خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ جب میں فوجی وردی پہنتی ہوں تو مجھے اپنے عورت ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔‘‘
فیروزی سی 208 ساختہ جہاز اڑاتی ہیں جو مسلح افواج کے سامان ِرسد کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سن 2001 میں امریکی حملے کے بعد سے عسکریت پسد طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغان خواتین ملکی پارلیمان اور فوج سمیت ہر شعبے میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔
بدلتے ہوئے اِس منظر نامے کے باوجود بھی قدامت پسند افغان معاشرے میں خواتین سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ گھروں تک محدود رہیں۔ علاوہ ازیں خواتین پر تشدد بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
فیروزی ابھی بچی ہی تھیں کہ اُن کا خاندان سن نوے کی دہائی میں ملکی خانہ جنگی کے باعث ہجرت کر کے پاکستان چلا آیا تھا۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے پر یہ خاندان واپس کابل چلا گیا۔ جب فیروزی ہائی اسکول کی طالبہ تھیں تب اُنہوں نے ٹی وی پر ایک اشتہار دیکھا جِس میں خواتین کو فوج میں شامل ہونے پر مائل کیا جا رہا تھا۔
اِس اشتہار سے متاثر فیروزی نے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد رابطہ کار افسر بننے کے لیے ملٹری اکیڈمی میں شمولیت اختیار کر لی۔ تب ہی اکیڈمی میں اعلان کیا گیا گیا کہ افغان ایئر فورس کو پائلٹ بننے کی خواہش رکھنے والی خواتین کی تلاش ہے۔
فیروزی سمیت بارہ خواتین نے پائلٹ کی تربیت کے لیے ٹیسٹ دیا تاہم صرف فیروزی ہی اِس تربیت میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں صفیہ فیروزی نے بطور پائلٹ اپنی تربیت مکمل کی۔
افغانستان ایئر فورس میں فیروزی دوسری خاتون پائلٹ ہیں لیکن دیگر پانچ خواتین بھی اِسی شعبے میں زیرِ تربیت ہیں۔ فیروزی کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ وہ دیگر خواتین کے لیے مثال بنیں۔
کیپٹن صفیہ فیروزی کے مطابق، ’’ ایک عورت کی حیثیت سے آپ کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے لیکن اِن مسائل سے نمٹنا بھی آپ ہی نے ہے۔‘‘
افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان جنرل محمد رادمانیش کے مطابق ایک لاکھ پچانوے ہزار افراد پر مشتمل افغان فوج میں اِس وقت 1800 خواتین فوجی اہلکار اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.