افغان سکیورٹی فورسز نے ملکی خفیہ ایجنسی کے تربیتی مرکز میں داخل ہو کر کم از کم دوعسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی ہے۔
اشتہار
کابل کے سکیورٹی ذرائع کے مطابق پیر اٹھارہ دسمبر کی صبح میں جو عسکریت پست ملکی خفیہ ادارے کی تربیت گاہ میں داخل ہوئے تھے، انہیں ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے بعد خفیہ ادارے کے زیر استعمال چار منزلہ عمارت کی تلاشی بھی مکمل کر لی گئی ہے۔ تلاشی کے عمل میں بم ڈسپوزل اسکواڈ بھی شامل تھا۔
حکام نے سکیورٹی فورسز کی جانب سے جوابی کارروائی ختم کرنے کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے افشار نامی علاقے میں واقع خفیہ ادارے کے تربیتی مرکز پر کیے گئے حملے کی ذمہ داری جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کر لی ہے۔ اس اعلان میں بتایا گیا تھا کہ داعش کے دو حملہ آور تربیتی ادارے کے اندر کامیابی سے داخل ہو گئے ہیں۔
کابل پولیس کے ترجمان کے مطابق ملک کے سب سے بڑے خفیہ ادارے نیشنل ڈاریکٹوریٹ برائے سکیورٹی کے تربیتی ادارے میں داخل ہو کر فائرنگ شروع کرنے والے جہادی کوئی بڑا جانی نقصان کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پولیس نے اس کی وجہ سکیورٹی اہلکاروں کی بروقت اور منظم انداز میں کی جانے والی جوابی کارروائی کو قرار دیا ہے۔
پولیس ترجمان کے مطابق اس حملے کے دوران حملہ آوروں کی فائرنگ سے صرف دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں اور کسی شخص کی ہلاکت نہیں ہوئی۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ عسکریت پسندوں کی اندھا دھند فائرنگ سے عمارت کے باہر چلتے پھرتے راہ گیروں میں سے کوئی بھی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا۔
افغانستان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا قیام سن 2015 میں ہوا تھا۔ اس جہادی گروپ نے ننگر ہار اور کنٹر صوبوں کے بعض اضلاع میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنا رکھا ہے۔
اس گروپ کی سرگرمیوں پر افغان حکومت اور امریکی فوج نے نظر رکھی ہوئی ہے۔ اسی تناظر میں افغانستان میں نیٹو مشن کے سربراہ امریکی جنرل نکلسن بھی کہہ چکے ہیں کہ اس جہادی گروپ کے خلاف جلد ہی عسکری کارروائی شروع کیے جانے کا امکان ہے۔
افغان پولیس کی تربیت
افغانستان سے بین الاقوامی امدادی افواج ایساف کے انخلاء کے بعد افغان فورسز کو ملک کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں اٹھانا ہوں گی۔اس سلسلے میں یورپی حکومتیں مقامی فورسز کو تربیت فراہم کر رہی ہیں اور برلن حکومت بھی اس میں شامل ہے۔
تصویر: AP
بارہ سال بعد ایک مشن کا اختتام
سن 2002ء ہی سے جرمن حکومت افغان پولیس کی تربیت اور افغانستان کی تعمیرنو میں کابل حکومت کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں جرمن حکومت یورپی پولیس مشن (ای یو پول) کا بھی حصہ ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
مختلف ترجیحات
جرمن ترجیحات میں یہ بھی شامل ہے کہ افغان پولیس ٹرینرز کو تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ خود ملک بھر میں افغان اہلکاروں کی تربیت کر سکیں۔
تصویر: Massoud Hossaini/AFP/Getty Images
چند ہفتوں میں ٹریننگ
بنیادی تربیتی کورس آٹھ ہفتوں میں مکمل کروا دیا جاتا ہے۔ گرفتاری کس طرح عمل میں لانی ہے؟ ہتھیاروں کا استعمال اور آئینی طریقے سے تفتیش کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ یہ سب کچھ اسی بنیادی ٹریننگ کا حصہ ہے۔
تصویر: Michael Kappeler/AFP/Getty Images
تنقید اور شک
کیا واقعی افغان فورسز بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو جائیں گی، اس پر شک کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ افغان پولیس بدعنوانی کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/Noorullah Shirzada
چار مقامات
افغان اہلکاروں کو چار شہروں میں تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ ان میں فیض آباد، مزارِ شریف، قندوز اور کابل شامل ہیں۔ فیض آباد اور قندوز کی سکیورٹی پہلے ہی افغانیوں کے حوالے کر دی گئی ہے۔
تصویر: picture alliance / JOKER
تمام شعبوں میں تربیت
پولیس کی تعلیم و تربیت کے علاوہ دیگر فنّی شعبوں میں بھی ٹریننگ فراہم کی جاتی ہے تاکہ سن 2014ء کے بعد پولیس کے لیے بنائی گئی عمارتوں کی دیکھ بھال بھی کی جا سکے۔
تصویر: dapd
خواتین پولیس اہلکاروں کی ضرورت
افغانستان میں خواتین پولیس اہلکاروں کی اشد ضرورت ہے۔ گھروں کی تلاشی کے دوران خاص طور پر خواتین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں جرمن فوج خواتین کو خصوصی کورسز کروا رہی ہے۔
تصویر: DW
خطرناک ملازمت
افغانستان میں پولیس کی ملازمت کس حد تک خطرناک ہے، اس کا اندازہ گزشتہ برس ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برس صرف مارچ سے جولائی کے مابین 2750 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔