1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان خواتین فٹبال کھلاڑی نئے محفوظ وطن کی تلاش میں

2 اکتوبر 2021

طالبان کو خواتین کی فٹبال ٹیم پر اس قدر غصہ تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر بعض کھلاڑیوں کے گھروں کو جلا دیا۔ ڈی ڈبلیو نے ٹیم کی سابق کپتان خالدہ پوپل سے بات کی، جو ان کھلاڑیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

Afghanistan Frauen Fußball Training
تصویر: Getty Images/M. Hossaini

افغان خواتین کی قومی فٹبال ٹیم کی سابق کپتان خالدہ پوپل نے جمعہ یکم اکتوبر کو بتایا کہ 32 افغان خواتین فٹ بال کھلاڑی اور ان کے اہل خانہ افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان پہنچے ہیں اور طالبان کے خوف سے کسی تیسرے ملک میں محفوظ پناہ کے متلاشی ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’طالبان نے بعض کھلاڑیوں کے گھروں کو جلا دیا جبکہ بعض کے اہل خانہ کو اٹھا کر لے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ 32 کھلاڑیوں کے کوچز اور ان کے اہل خانہ سمیت تقریبا 135 افراد خواتین کی ٹیم سے وابستگی کے سبب بے گھر ہو ئے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس وقت وہ سب پاکستان میں ہیں اور ہم ان کے لیے تیسرے میزبان ممالک کی تلاش کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔"

ثابت قدم رہنے کی تلقین

انہوں نے اپنے ملک کی خواتین سے کہا کہ اس مشکل وقت میں انہیں ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے: ’’مجھے اپنے لوگوں، خاص طور پر افغانستان کی خواتین کے لیے افسوس اور دکھ ہو رہا ہے۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپ مضبوط رہیں۔ ہم ہر ممکن طریقے سے آپ کی مدد کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

افغان خواتین ٹیم کی سابق کپتان خالدہ پوپل آج کل ڈنمارک میں ہیں۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ بعض خواتین کھلاڑيوں کو ملک سے باہر نکل کر اس کھیل کو کھیلنے کے مواقع نصیب ہوئے۔

ان کا کہنا تھا، ’’افغان خواتین کی پہلی قومی ٹیم کے بانیوں میں سے ایک ہونے کے طور پر میں نے فٹ بال کے ذریعے اپنی آزادی پائی۔ خواتین فٹ بال کی بنیاد افغان خواتین کے حقوق کے لیے جد و جہد پر مبنی ہونے کے ساتھ ہی، اس ثقافت کو بھی چیلنج کرنے کے لیے تھی جو خواتین کے بنیادی انسانی حقوق سلب کر رہی تھی۔‘‘

اگست میں طالبان نے جب افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا تو اسی وقت خالدہ پوپل نے خواتین فٹبال کھلاڑیوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اپنی کِٹس جلانے کے ساتھ ہی سوشل میڈیا کے اپنے اکاؤٹنس کو بھی ڈیلیٹ کر دینا چاہیے۔ 

تصویر: Imago/Ritzau Scanpix

افغانستان سے فرار

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ہی تقریباﹰ تین ہزار وہ خواتین اور لڑکیاں جو فٹبال کھیلتی تھیں، انہیں اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو گيا تھا۔ سن 1996ء سے 2001ء کے درمیان طالبان نے اپنے پہلے دور اقتدار میں خواتین کی تعلیم اور ان کے گیمز کھیلنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

آٹھ ستمبر کو طالبان کے ایک ترجمان احمد اللہ واثق نے ایک آسٹریلوی نشریاتی ادارے سے بات چیت میں کہا تھا، ’’اسلام اور امارت اسلامیہ خواتین کو کرکٹ کھیلنے یا اس قسم کے کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دیتی جہاں وہ سب کے سامنے کھلے عام پیش ہوں۔‘‘

افغانستان کی قومی فٹبال ٹیم اور بہت سی سینیئر خواتین کھلاڑیوں نے آسٹریلیا اور پرتگال جیسے ممالک میں پناہ لی ہے۔ ایک عالمی تنظیم، ’فٹبال فار پیس‘ نے ستمبر میں ریاستی سطح کی فٹبال کھلاڑیوں، کوچز اور ان کے اہل خانہ کو پڑوسی ملک پاکستان منتقل کرنے کا انتظام کیا تھا۔

پاکستانی فٹبال فیڈریشن نے افغانستان سے آنے والی ایسی تمام فٹبال کھلاڑیوں کا لاہور میں اپنے صدر دفتر میں پھولوں سے استقبال کیا تھا۔

ص ز/ا ب ا (روئٹرز، اے ایف پی)  

افغانستان میں خواتین کا مستقبل اور پاکستانی خواتین

03:01

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں