1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

'افغان خواتین پر پابندی کے سبب طالبان کو تسلیم کرنا ناممکن'

22 جون 2023

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ طالبان اس عالمی ادارے اور اس کے رکن ممالک سے خود کو تسلیم کرنے کی اپیل کر رہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ وہ ان اہم قدروں کے خلاف بھی عمل پیرا ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہیں۔

Afghanistan Frauen Protest Bildung
تصویر: AFP

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے سلامتی کونسل کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جب تک خواتین کے حقوق پر پابندیاں عائد رہیں گی اس وقت تک طالبان حکومت کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے تسلیم کرنا "تقریباً ناممکن" ہو گا۔

انہوں نے کہا،"افغانستان کے عملاً حکمراں کے ساتھ اپنی باقاعدہ بات چیت میں میں ان رکاوٹوں کے بارے میں دو ٹوک انداز میں بات کرتی ہوں جو انہوں نے فرامین اور پابندیوں، بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے خلاف احکامات، کے نفاذ کے ذریعے اپنے لیے پیدا کر لیے ہیں۔"

طالبان کی’عورت کشی‘ عالمی جرم قرار دی جائے، عالمی مبصر

انہوں نے کہا،"طالبان اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک کی طرف سے خود کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج کلیدی اقدار کے خلاف کام کرتے ہیں۔"

اوتن بائیفا نے مزید کہا،"ہم نے انہیں آگاہ کردیا ہے کہ جب تک یہ حکم نامے موجود ہیں، یہ تقریباً ناممکن ہے کہ ان کی حکومت کو بین الاقوامی برادری کے اراکین تسلیم کریں۔"

اقوام متحدہ کی تمام تر اپیلوں کے باوجود طالبان نے ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں میں افغان خواتین کے کام کرنے پرپابندی عائد کردی تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

طالبان کی جانب سے پابندیوں کی کوئی وضاحت نہیں

افغانستان کی طالبان حکومت کواب تک کسی بھی ملک یا بین الاقوامی تنظیم نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

طالبان حکام نے سن 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے اسلام کی اپنی سخت تشریح کے تحت افغان خواتین پر متعدد پابندیاں عائد کردی ہیں، جن میں ان پر اعلیٰ تعلیم اور بہت سی سرکاری ملازمتوں پر پابندی بھی شامل ہے۔

افغانستان میں اب اقوام متحدہ کے خواتین عملے پر بھی پابندی

افغانستان میں دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے سن 1996سے 2001 کے درمیان اپنی پہلی حکومت کے مقابلے زیادہ اعتدال پسند رویہ اختیار کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے جلد ہی خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں عائد کرنا شروع کردیا۔ ان پابندیوں میں خواتین کو ملازمتوں اورعوامی مقامات مثلا ً پارکوں، حمام اور جم میں جانے پر پابندیاں شامل ہیں۔ لڑکیوں پر بھی درجہ چھ سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کی تمام تر اپیلوں کے باوجود طالبان نے ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں میں افغان خواتین کے کام کرنے پرپابندی عائد کردی تھی۔

طالبان نے اسلامی قوانین کی سخت تشریح مثلاً سر عام پھانسی پر عمل درآمد دوبارہ شروع کردیا ہے۔

خواتین کو طالبان سے کام کرنے کی اجازت مل جانے کی امید

اوتن بائیفا کا کہنا تھا کہ ہم نے طالبان سے ان پابندیوں کو ختم کرنے کی بارہا اپیلیں کیں۔ لیکن انہوں نے نہ تو ان پابندیوں کی کوئی وضاحت کی اور نہ ہی یہ یقین دہانی کرائی کہ انہیں کب تک اٹھایا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا،"یہ بھی واضح ہے کہ طالبان کے یہ فرمان افغان عوام میں بھی انتہائی غیر مقبول ہیں۔ ان کی وجہ سے انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے ملک کی تقریباً نصف آبادی متاثر ہو رہی ہے اور معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔"

طالبان سے لڑنے والی افغان خواتین کا غیر یقینی مستقبل

02:59

This browser does not support the video element.

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں