افغان خواتین کا امن عمل میں شمولیت کا مطالبہ
22 جنوری 2016نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ رواں ماہ افغانستان امن مذاکرات کے 20 سے زائد راؤنڈز کا انعقاد ہو چُکا ہے جن میں سے کسی ایک میں بھی خواتین موجود نہیں تھیں۔گزشتہ برس طالبان کے وفود کے ساتھ دو ایسے اجلاس میں خواتین شامل تھیں۔ ایک اسلام آباد میں اور دوسرا دوحہ میں منعقد ہوا تھا تاہم ایسا کابل حکومت کی منظوری سے نہیں ہوا تھا۔
اس سال رواں ماہ کے دوران افغانستان، پاکستان، امریکا اور چین کے وفود کے مابین طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی کے موضوع پر دو راؤنڈز منعقد ہو چُکے ہیں جن میں ایک بھی خاتون موجود نہیں تھی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ موسم گرما میں کابل حکومت کی طرف سے طویل عرصے تک طالبان کی قیادت کرنے والے لیڈر کے انتقال کی خبر کے اعلان کے بعد سے منقطع ہو چُکا تھا۔
گزشتہ چند ماہ سے ان مذاکرات کی بحالی پر غیر معمولی زور دیا جا رہا ہے تاہم طالبان عناصر کی طرف سے خواتین کو اب بھی سفاکی اور تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور افغانستان کی عورتوں میں اب یہ خوف پایا جاتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کہیں اُن کے اُن حقوق کے کھونے کا سبب نہ بن جائے جو انہوں نے طویل اور دشوار جدوجہد کے بعد کسی حد تک حاصل کیے ہیں۔
بہت سے افراد کے لیے افغانستان کی 15 سالہ جنگ، جو ہزاروں زندگیوں کے خاتمے کا سبب بن چُکی ہے، کا خاتمہ اس دقیانوسی معاشرے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ سے کہیں زیادہ بڑی ترجیح ہے۔
طالبان مذاکرات میں خواتین کی عدم موجودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی پارلیمان میں ان کی نمائندگی بہت محدود ہے۔ افغانستان میں حکومتی سطح پر تمام اعلیٰ عہدوں پر مرد ہی فائض ہیں اور سکیورٹی فورسز کا بھی یہی حال ہے۔´خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عناصر کا کہنا ہے کہ مغرب سے تحصیل یافتہ ٹیکنوکریٹ اور افغان صدر اشرف غنی جنہوں نے خواتین کے آئینی حقوق کے تحفظ کا وعدہ کر رکھا ہے، اپنے وعدوں سے مکر گئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ سے منسلک ایک ریسرچر احمد شجاع کے بقول،’’حکومت نے متعدد بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ وہ خواتین کے مفادات کو اُس سنجیدگی سے نہیں لیتی جتنا اُسے لینا چاہیے‘‘۔
احمد شجاع کا کہنا ہے کہ افغانستان پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1325 جو سن 2000 میں پاس ہوئی تھی اُس پر عمل پیرا ہو۔ اس قرارداد کے تحت افغان خواتین کو بھی امن مذاکرات میں شامل کیا جانا چاہیے۔
اس قرار داد سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک تجزیاتی رپورٹ گزشتہ برس شائع ہوئی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ خواتین کو شامل کرنے سے مذاکراتی عمل کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ خواتین کی شمولیت مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کو 20 فیصد تک بڑھا دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں طے پانے والا معاہدہ کم از کم دو سال تک برقرار رہتا ہے۔ س معاہدے کے سبب ہونے والا امن جتنے زیادہ عرصے تک قائم رہے گا اتنے زیادہ امکانات اس بات کے ہوں گے کہ یہ پائیدار ثابت ہوگا۔ اس تجزیاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواتین مباحثے کو وسیع تر کرنے، عمل کو تیز تر بنانے اور معاشرے کے مختلف سیکٹرز کو شامل کرتے ہوئے ان سب کو ساتھ لے کر چلنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔