افغان خواتین کو کنوار پن ٹیسٹ کا سامنا، رپورٹ
1 مارچ 2016![Symbolbild Eine Frau trägt Burka Glaube Religion](https://static.dw.com/image/17093264_800.webp)
ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق انہوں نے گزشتہ برس افغانستان بھر میں ترپین خواتین اور لڑکیوں کے انٹرویو کیے اور ان میں سے اڑتالیس خواتین کا کہنا تھا کہ سرکاری حکام کی طرف سے ان کا ورجینٹی یا کنوار پن کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ ان تمام خواتین پر گھر سے بھاگنے یا پھر جنسی تعلق قائم کرنے کا الزام تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے یہ تحقیقی رپورٹ پیر کے روز شائع کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق، ’’ کنوار پن کے ٹیسٹ ان خواتین کی رضا مندی کے بغیر اور جبراﹰ کیے گئے تھے۔ اس وجہ سے انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘
ہیومن رائٹس کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ایسا کرنا نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ افغان آئین کی روح کے بھی منافی ہے اور یہ افسوس ناک بات ہے کہ زیادہ تر واقعات میں کنوار پن کے ٹیسٹ مرد محافظوں اور دیگر افراد کی موجودگی میں کیے گئے۔ ان ٹیسٹوں کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ آیا یہ خواتین شادی کے علاوہ بھی کسی جنسی سرگرمی میں ملوث رہی ہیں؟ لیکن رپورٹ کے مطابق ایسے ٹیسٹوں کی سائنسی بنیاد انتہائی کمزور ہے۔
رپورٹ کے مطابق جن خواتین کے یہ ٹیسٹ کیے گئے ان میں تیرہ برس کی لڑکیاں بھی شامل تھیں جبکہ متعدد خواتین کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ بغیر اجازت اپنے گھر سے باہر نکلیں۔ ان میں سے ایک تہائی خواتین کا ورجینٹی ٹیسٹ متعدد مرتبہ کیا گیا۔
اس رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان ایسے قدامت پسند معاشرے میں خاتون کا کنوار پن انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس طرح کے ٹیسٹ ان کے ذاتی وقار، جذباتی صحت، اور سماجی حیثیت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کئی واقعات میں ایسے بھی ہوا ہے کہ شادی والے دن پتہ چلا ہے کہ لڑکی باکرہ نہیں ہے، جس بعد یا تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا پھر اسے قتل کر دیا گیا۔
اس رپورٹ میں افغان حکومت کی طرف سے ایسے تمام تر ٹیسٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔