افغان خواتین کی بہبود کا امریکی پروگرام ناکامی سے دوچار
14 ستمبر 2018
ماہرین کے مطابق افغانستان میں خواتین کی ترقی کے لیے امریکا کے فنڈ سے چلنے والا پروگرام ناکامی سے دو چار ہو رہا ہے۔ افغان سول سوسائٹی میں خواتین کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
اشتہار
افغانستان کی تعمیر نو کی ذمہ دار اتھارٹی ’اسپیشل انسپکٹر جنرل فار ری کنسٹرکشن آف افغانستان‘ یا ’سگار‘ کی رپورٹ کے مطابق یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت صرف پچپن خواتین ہی افغان حکومت میں نوکریاں حاصل کر سکیں۔ ہدف دو ہزار ایک سو خواتین کو ملازمتیں فراہم کرنا تھا۔
یہ رپورٹ جمعرات کو شائع کی گئی ہے۔ اس اسکیم کا ایک حصہ بارہ ہزار پانچ سو خواتین کو بہتر یا نئی نوکریاں فراہم کرنا تھا لیکن یو ایس ایڈ نے یہ تعداد کم کر کے ایک ہزار آٹھ سو چوبیس خواتین کو ہی مدد فراہم کی۔
اس پروگرام کو سن 2014 میں شروع کیا گیا تھا اور اس ایڈ پراجیکٹ میں امریکا کی جانب سے دو سو سولہ ملین ڈالر کا بجٹ فراہم کیا گیا تھا۔
یو ایس ایڈ کا کہنا ہے کہ یہ عالمی سطح پر خواتین کی بہبود کے لیے کی جانے والی سب سے بڑی امریکی سرمایہ کاری ہے۔ یہ پروگرام سن 2020 یا سن 2021 تک جاری رہے گا۔ قدامت پسندانہ سماجی رویوں، دفاتر میں ہراساں کیے جانا اور اچھی تعلیم تک رسائی نہ ہونا وہ عوامل ہیں جو افغان خواتین کو معاشرے میں بھر پور کردار ادا کرنے سے روکتے ہیں۔
رواں برس جون میں ہی بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اس وقت تین اعشاریہ سات ملین افغان بچوں کا ساٹھ فیصد حصہ بچیوں پر مشتمل ہے جنہیں اسکول جانے کی سہولت میسر نہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے بے انتہا دباؤ کے باوجود افغانستان آج بھی خواتین کے لیے ایک انتہائی مشکل ملک ہے۔
ص ح / ع ا / نیوز ایجنسی
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.