افغان رہنماؤں کا وفد پاکستان میں، ’ لاہور پراسس‘ جاری
22 جون 2019
افغان سیاسی رہنماؤں کا ایک وفد پاکستان میں امن مذاکرات کر رہا ہے۔ اس تین روزہ کانفرنس کے بعد افغان صدر اشرف غنی بھی پاکستان کا دورہ کریں گے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے آج ہفتہ 22 جون کو بتایا ہے کہ افغان سیاسی رہنماؤں کا ایک وفد 'لاہور پراسس‘ نامی کانفرنس میں شریک ہے جس میں افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے۔
پاکستانی سیاسی رہنماؤں کے ساتھ جاری اس تین روزہ کانفرنس میں پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے علاوہ کئی دیگر اہم امور پر گفتگو ہو رہی ہے۔
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد کی جا رہی ہے، جب افغان صدر اشرف غنی آئندہ ہفتے پاکستان کو دورہ کر رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق پاکستانی دارالحکومت کے قریب ہی واقع بھوربن میں جاری اس کانفرنس میں طالبان کے نمائندوں کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔
اس کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسلام آباد حکومت ایک مستحکم افغانستان چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان کے تنازعے کا پر امن حل تلاش کر لیا جائے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا، ''ہم اپنے ہمسایہ ملک (افغانستان) کی خودمختاری اور سرحدی سالمیت کا احترام کرتے ہیں اور ایک پرامن، مستحکم، متحد، جمہوری اور خوشحال افغانستان کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘
شاہ محمود قریشی نے دونوں ممالک کے مابین اعتماد کے فقدان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کو عملی اقدامات لیتے ہوئے اعتماد سازی کی کوششوں میں تیزی لانا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ دونوں ممالک کو کسی کو اجازت نہیں دینا چاہیے کہ وہ ان کی سرزمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں۔
بتایا گیا ہے کہ اس کانفرنس کے دوران ہمسایہ ممالک کے رہنما تجارت، اقتصادیات اور صحت کے شعبوں میں تعاون پر بھی غور کریں گے۔ مبصرین کے مطابق یہ معاملات دراصل دونوں ممالک کے مابین تعاون کے ایک نئے باب کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ افغان حکومت پاکستان پر الزام عائد کرتی رہی ہے کہ وہ طالبان کو تعاون فراہم کرتی ہے۔ تاہم پاکستان ایسے الزامات کو مسترد کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی بدامنی کے پیچھے افغانستان میں موجود شدت پسندوں کا ہاتھ ہے۔ یہ دعویٰ کابل حکومت رد کرتی ہے۔
ع ب / ا ب ا / خبر رساں ادارے
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔