1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

افغان رہنماؤں کو اپنی جنگ خود ہی لڑنی ہو گی، جو بائیڈن

11 اگست 2021

افغانستان میں طالبان نے دو مزید صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔ ادھر امریکی صدر کا کہنا ہے کہ انہیں افغانستان سے انخلاء پر کوئی افسوس نہیں ہے اور افغانوں کو اپنی جنگ خود ہی لڑنی ہو گی۔

Afghanistan Türkische Soldaten und afghanische Polizisten
تصویر: Wakil Koshar/AFP/Getty Images

افغانستان میں طالبان کی تیزی سے پیشقدمی جاری ہے اور جنگجوؤں نے منگل کے روز دو مزید صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی گزشتہ پانچ روز کے دوران طالبان آٹھ صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہو چکے ہیں۔ جنوب مغربی شہر فراہ اور شمال میں پل خمری اب طالبان کے قبضے میں ہے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق طالبان نے شمال مشرقی صوبے بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر بھی قبضہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اگر یہ خبر درست ثابت ہوتی ہے تو طالبان نے اب تک نو ریاستی دارالحکومتوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ تاہم افغان حکام کا کہنا ہے کہ بدخشاں میں طالبان کے خلاف فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ کمانڈو آپریشن بھی جاری ہے جس میں طالبان کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔  

نئے علاقوں پر قبضہ

فراہ شہر ایرانی سرحد کے پاس واقع ہے اور اس طرح طالبان نے ایران سے متصل ایک اور سرحدی گزرگاہ کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ جمعے کو سب سے پہلے طالبان نے جس صوبے نمروز پر قبضہ کیا تھا وہ بھی ایرانی سرحد پر ہی واقع ہے اور اس طرح وہ دو سرحدی گزر گاہوں کو اپنے قبضے میں لے چکے ہیں۔

فراہ کی صوبائی کونسل کے ایک رکن شہلا ابو بر نے منگل کے روز خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ''آج دوپہر بعد سکیورٹی فورسز کے ساتھ مختصر سی لڑائی کے بعد طالبان فراہ شہر کے اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے گورنر کے دفتر اور پولیس ہیڈ کوارٹر کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔''  ایک رکن پارلیمان عبدالناصر فراہی نے بھی فراہ پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کی ہے۔

تصویر: REUTERS

اس سے قبل منگل کے روز ہی شمالی صوبے بغلان کے صوبائی دارالحکومت پل خمری پر بھی طالبان نے اپنا کنٹرول حاصل کرنے کا دعوی کیا تھا اور مقامی لوگوں نے خبر رساں اداروں سے اس بات کی تصدیق کر دی تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وہ مقامی لوگ جو افغان سکیورٹی فورسز کو رپورٹ کیا کرتے تھے انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پل خمری میں مختصر لڑائی کے بعد افغان فورسز شہر کو چھوڑ کر فرار ہو گے۔ ان کے مطابق حکومتی افواج صحرائی علاقے کیلاگی کے جانب گئے جہاں پر ایک فوجی چھاؤنی واقع ہے۔

افغان پارلیمان کے ایک اور رکن معمور احمدزئی اور ایک فوجی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں پل خمری میں حکومتی افواج کی پسپائی کی تصدیق کی ہے۔ معمور احمد زئی کا کہنا تھا، ''تقریبا ًدو گھنٹے کی لڑائی کے بعد سکیورٹی فورسز کے پیر اکھڑ گئے اور وہ پیچھے چلی گئی۔''

طالبان نے گزشتہ روز ایبک شہر پر قبضہ کر لیا تھا جو مزار شریف اور کابل کے درمیان واقع ہے اور اطلاعات کے مطابق اب طالبان مزار شریف کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ طالبان اب تک نمروز، شبرغان، قندوز، سر پل، طالقان، ایبک، فراہ اور پل خمری پر قابض ہو چکے ہیں۔ ان آٹھوں اہم علاقوں کو گزشتہ محض پانچ روز کے اندر فتح کیا ہے۔

تصویر: REUTERS

امریکی صدر کا کیا کہنا ہے؟

اس دوران وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن نے افغانستان کی تازہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں وہاں سے فوجی انخلاء کے اپنے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی لڑائی لڑنے اور اس کا دفاع کرنے کی ذمہ داری اب افغان رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے۔

وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکا اپنے وہ تمام وعدے پورا کر رہا ہے جو اس نے افغان حکومت سے کیے تھے، جیسے قریبی فضائی مدد پہنچانا اور افغان فوجیوں کو کھانے پینے اور ساز و سامان کے ساتھ ہی تنخواہیں دینا وغیرہ۔ '' افغان رہنماؤں کو ایک ساتھ آنا ہو گا، انہیں اب اپنے لیے خود ہی لڑنا ہوگا۔''

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران امریکا نے افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں اور اپنے ہزاروں فوجیوں کی جانیں قربان کی ہیں اور اب بھی وہ ہر طرح کی امداد فراہم کر رہا ہے۔

اس دوران افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ طالبان سے مقابلے کے لیے علاقائی ملیشیا سے مدد طلب کر رہے ہیں۔ انہوں نے افغان شہریوں سے ملک کے جمہوری تانے بانے کی حفاظت اور اس کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی بھی اپیل کی ہے۔ 

افغانستان کے مختلف علاقوں میں اس وقت حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے جس میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایک ہزار سے بھی زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ تاہم اس سے سب سے زیادہ بچے اور خواتین متاثر ہو رہی ہیں۔

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، روئٹرز)

طورخم تجارتی ٹرمینل: مقامی قبائل این ایل سی سے نالاں

05:27

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں