افغان سکیورٹی فورسز میں بھرتی ہونے والے پاکستانی
13 اگست 2012چترال میں ایک سینئر سرکاری عہدیدار رحمت اللہ وزیر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا:’’کم از کم 14 پاکستانی استعفے دے کر واپس پہنچ گئے ہیں۔ رواں ہفتے ہمیں افغانستان سے مزید ایک درجن پاکستانیوں کی وطن واپسی کی توقع ہے۔‘‘
وزیر نے بتایا کہ یہ پاکستانی شہری سکیورٹی حکام کی جانب سے ان کے اہلِ خانہ کو دیے گئے اس انتباہ کے بعد واپس لوٹے ہیں کہ افغانستان جانے والے ان مردوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ وزیر نے کہا:’’ہمیں (پاکستانی سکیورٹی اداروں کو) یہ فکر تھی کہ کچھ پاکستان مخالف عناصر ان لوگوں کو ہمارے ملک کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
حکام کا کہنا ہے کہ شمال مغربی وادی چترال سے تعلق رکھنے والے یہ پاکستانی شہری بھی افغان سرحد سے قریب واقع علاقوں میں بسنے والے اُن دیگر بہت سے پاکستانیوں میں شامل ہیں، جو غربت اور بیروزگاری سے تنگ آ کر ہمسایہ ملک افغانستان چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ برس تقریباً تین درجن پاکستانی شہری جا کر افغان سکیورٹی فورسز میں بھرتی ہو گئے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے، جو پاکستان کے سلامتی سے متعلق اداروں کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے۔
چترال کی پاکستانی وادی مشرقی افغانستان کے صوبے کنڑ سے بہت قریب واقع ہے۔ کنڑ اُن علاقوں میں شامل ہے، جہاں طالبان عسکریت پسند سرگرم عمل ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2400 کلومیٹر طویل متنازعہ سرحد پر کوئی واضح حد بندی لائنیں نہیں ہیں اور اس سرحد کے دونوں جانب طالبان اور القاعدہ سے قریبی وابستگی رکھنے والے دیگر گروپوں نے اپنے مضبوط ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان بڑی تعداد میں ہونے والے اُن حالیہ سرحد پار حملوں کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، جن کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں خاندان بے گھر ہوئے ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں افغانستان نے سلامتی سے متعلق اپنے چوٹی کے دو وزراء کو برطرف کر دیا تھا کیونکہ اراکین پارلیمان نے اُن پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ پاکستان کی جانب سے مبینہ سرحد پار گولہ باری کے معاملے سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔
اسلام آباد حکومت کا کہنا یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے عرصے کے دوران افغانستان سے کم از کم پندرہ سرحد پار حملے کیے گئے، جن میں عسکریت پسندوں نے شمال مغربی شہروں دیر اور چترال کی شہری آبادیوں اور پاکستانی چیک پوائنٹس کو نشانہ بنایا۔
aa/ng (AFP)