افغان سکیورٹی فورسز نے جلال آباد جیل کا کنٹرول حاصل کر لیا
4 اگست 2020
افغان حکام نے کہا ہے کہ ننگر ہار کے شہر جلال آباد کی اس جیل کا کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے، جس پر اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے حملہ کیا تھا۔ ایک دن کی خونریز جھڑپوں کے بعد افغان سکیورٹی فورسز کو یہ کامیابی ملی۔
اشتہار
افغان حکام نے بتایا ہے کہ جلال آباد کی مرکزی جیل پر حملہ کرنے والے انتہا پسندوں کو پسپا کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دن بھر کی کارروائی کے نتیجے میں انتالیس افراد ہلاک ہوئے جبکہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو جیل میں قید اپنے چار سو فائٹرز کو رہا کرانے میں کامیاب ہو گئے۔
صوبہ ننگر ہار کے شہر جلال آباد کی اہم جیل پر اتوار کی علی الصبح کیا گیا یہ حملہ اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ افغانستان میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ کی موجودگی اس شورش زدہ ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔
طالبان اور امریکا کے مابین امن ڈیل کے تحت امریکی اور نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلا کے بعد اس وسطی ایشیائی ملک میں اس جہادی تنظیم کی کارروائیوں سے تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ننگر ہار کے حکام نے بتایا ہے کہ جیل پر حملے کے دوران کم ازکم دس جہادیوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔ صوبائی کونسل کے ممبر اجمل عمر نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں کہا کہ باقی ماندہ ہلاک ہونے والوں میں جیل کے قیدی، شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیں۔ تاہم اس بارے میں کوئی سرکاری اعدادوشمار جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
اس حملے میں پچاس افراد زخمی بھی ہوئے، جن کا علاج کیا جا رہا ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق کچھ زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ جلال آباد کے ہسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے۔
حکام نے بتایا ہے کہ جیل حملے میں ہلاک شدگان میں کم از کم تین طالبان بھی تھے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ طالبان اور 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین ایک نئی عسکری کشمکش شروع ہو سکتی ہے۔
اجمل عمر نے کہا ہے کہ حملے کے وقت اس جیل میں پندرہ سو کے لگ بھگ قیدی موجود تھے، جن میں سے چار سو تیس اپنی اپنی بیرکوں میں چھپ گئے تھے۔
اس حملے کا مقصد جہادیوں کو جیل سے رہا کرانا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس کارروائی سے داعش کے جنگجو جیل میں قید چار یا پانچ اہم سنیئر جہادیوں کو آزاد کرانے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ننگرہار صوبے میں داعش کے جنگجوؤں کی موجودگی کافی زیادہ ہے تاہم اس صوبے مین ان جنگجوؤں کی تعداد کے بارے میں مصدقہ اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔
ع ب / ع س / خبر رساں ادارے
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔