افغان سکیورٹی فورسز ہمارے نشانے پر ہیں: طالبان
3 مارچ 2020![](https://static.dw.com/image/52165813_800.webp)
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ دوحہ معاہدے کے تحت اب وہ غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کریں گے لیکن افغان سکیورٹی فورسز بدستور ان کے نشانے پر ہیں۔
طالبان کا یہ اعلان امریکا کے ساتھ قطر میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخطوں کے چند روز بعد ہی سامنے آیا ہے۔
اسی دوران افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار سے اطلاعات ہیں کہ طالبان جنگجوؤں نے ملکی سکیورٹی فورسز کی پانچ چیک پوسٹوں پر حملے کیے ہیں۔ ایسی ہی اطلاعات شمال مغربی صوبے بدغیس سے بھی ہیں، جہاں طالبان کے حملے میں ایک افغان فوجی مارا گیا۔
امریکی اہلکار پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ معاہدے سے یہ توقع نہیں رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں طالبان کے حملے فوری طور پر رک جائیں گے۔ واشنگٹن سے جاری کردہ ایک بیان میں امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مائیک ملی نے کہا کہ طالبان کوئی ایک متحد گروہ نہیں بلکہ مختلف دہشت گرد تنظیموں کا گٹھ جوڑ ہے، اس لیے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ پر تشدد کارروائیاں فوری طور پر ختم ہو جائیں گی۔
ماضی میں امریکا کا موقف رہا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں کی صورت میں امریکی افواج ان کی مدد کریں گی۔
دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کی ایک اہم لیکن اب متنازعہ ہو چکی شق قیدیوں کے تبادلے سے متعلق ہے۔
معاہدے میں طالبان کی حراست میں ایک ہزار افغان سرکاری اہلکاروں کو آزاد کرنے کے بدلے افغان جیلوں میں قید پانچ ہزار طالبان کو رہا کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
تاہم اتوار کو افغانستان کے صدر اشرف غنی نے واضح کر دیا تھا کہ کابل حکومت قیدیوں کی رہائی کے ایسے کسی سمجھوتے کی فریق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق ہی طے کیا جائے گا۔
افغان طالبان دوحہ میں امریکا کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو اپنی جیت قرار دیتے ہیں اور ان کے مطابق کابل میں قائم 'امریکا کی کٹھ پتلی حکومت‘ کے ساتھ بات چیت ضروری نہیں ہے۔