1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان سیاسی بحران، جرمن مندوب افغانستان میں

عاطف بلوچ30 جون 2014

صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے حل کی کوششوں کے لیے جرمن مندوب کابل پہنچ گئے ہیں جبکہ جنوبی افغانستان میں طالبان کے حملوں کی وجہ سے سکیورٹی کی صورتحال مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔

تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے برلن سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے اتوار کے دن بتایا ہے کہ افغانستان کے لیے جرمنی کے خصوصی مندوب میشائیل کوخ گزشتہ ہفتے افغانستان روانہ کر دیے گئے تھے۔ جرمن وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے کوخ کو افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ وہاں صدارتی انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال کو حل کرنے کی کوشش کر سکیں۔

میشائیل کوخ نے جمعرات کے عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی سے ملاقاتیں کیں

جرمن میگزئن ڈئر اشپیگل کے مطابق میشائیل کوخ نے جمعرات کے دن چودہ جون کو منعقد ہوئے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حصہ لینے والے دونوں امیدواروں سے ملاقات کی۔ جرمن میگزئن کی اتوار کے دن کی اشاعت میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کوخ نے اپنی ملاقاتوں میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کو خبردار کیا کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک ’سنہری موقع‘ ضائع کر سکتے ہیں۔ جرمن وزارت خارجہ نے یہ نہیں بتایا کہ کوخ کب تک افغانستان میں قیام کریں گے۔

افغان صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے امیدوار عبداللہ عبداللہ نے انتخابی عمل میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ووٹوں کی گنتی کا بائیکاٹ کر دیا ہے، جس سے وہاں سیاسی طور پر ایک بحران پیدا ہو چکا ہے۔ سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کا الزام ہے کہ صدر حامد کرزئی کی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن ان کے حریف اشرف غنی کو کامیاب بنانے کے لیے ایک منظم کوشش میں مصروف ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ایسے الزامات مسترد کرتے ہوئے ووٹوں کی گنتی کے عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ عبداللہ عبداللہ نے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے 45 فیصد جبکہ اشرف غنی نے 31 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے تاہم کوئی بھی امیدوار پچاس فیصد کی قطعی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج دو جولائی کو متوقع ہیں جبکہ باقاعدہ سرکاری نتائج بائیس جولائی کو عام کیے جائیں گے۔

اس سیاسی بحران کے دوران ہی جنوبی صوبے ہلمند میں آٹھ سو افغان طالبان نے اپنی ایک نئی کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے افغان سکیورٹی دستے اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان میں نیٹو فوج مشن رواں برس کے اختتام پر مکمل ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں تمام تر غیر ملکی فوجی وہاں سے نکال لیے جائیں گے۔

ہلمند میں آٹھ سو افغان طالبان نے اپنی ایک نئی کارروائی کا آغاز کر رکھا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے آغاز میں شروع کیے گئے طالبان کے حملوں میں اب تک کم ازکم سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں شہری، سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور طالبان بھی شامل ہیں۔ گزشتہ پانچ دنوں سے جاری ان جھڑپوں کے نتیجے میں مقامی حکام کے مطابق دو ہزار افراد بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب افغانستان اور امریکا کے مابین سکیورٹی کے معاہدے کو بھی ابھی تک حتمی شکل نہیں دی جا سکی ہے کیونکہ افغانستان کے نئے صدر کو اس معاہدے پر دستخط کرنا ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں