افغان شہریوں کا قتل عام، سابق امریکی فوجی کو عمر قید کی سزا
مقبول ملک اے پی
29 ستمبر 2017
ایک امریکی فوجی عدالت نے سولہ افغان شہریوں کے قتل کے ملزم اور ملکی فوج کے سابق ملازم رابرٹ بیلز کو سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے اسے مجرم قرار دیا ہے اور اُس کی عمر قید کی توثیق بھی کر دی ہے۔
اشتہار
امریکی ریاست ورجینیا کے شہر فورٹ بیلوائر سے جمعہ انتیس ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق رابرٹ بیلز امریکی فوج کا ایک سابق سٹاف سارجنٹ ہے، جس نے 2012ء میں اپنی ملٹری سروس کے دوران جنگ زدہ افغانستان میں تعیناتی کے عرصے میں ایک روز دو مختلف دیہات میں طلوع آفتاب سے قبل اندھا دھند فائرنگ کر کے 16 افغان شہریوں کو ہلاک اور چھ دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔
ایک جنگ زدہ علاقے میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی وجہ کے بغیر ملزم بیلز نے یہ خونریز کارروائی بالکل اکیلے ہی کی تھی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق رابرٹ بیلز کو ماضی میں سنائی گئی عمر قید کی سزا کے خلاف اس کی ایک اپیل فورٹ بیلوائر میں امریکی فوج کی مجرمانہ نوعیت کے مقدمات میں اپیلوں کی سماعت کرنے والی ایک عدالت نے حتمی طور پر مسترد کر دی۔
رابرٹ بیلز پیدائشی طور پر امریکی ریاست اوہائیو کا رہنے والا ہے لیکن ریاست واشنگٹن میں مقیم ہے۔ اس نے اپنے خلاف اسی مقدمے کی اولین سماعت کے دوران 2013ء میں سزائے موت سے بچنے کے لیے اپنا جرم قبول کر لیا تھا۔
بیلز کی جس اپیل پر اب ریاست ورجینیا میں یو ایس آرمی کورٹ آف کریمینل اپیلز نے اپنا فیصلہ سنایا ہے، اس میں ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی فوج نے اس کے خلاف مقدمے میں ایک گواہ سے متعلق معلومات کو دانستہ طور پر خفیہ رکھا تھا۔
دہشت گردوں کے ’محفوظ ٹھکانے‘ ختم کر دیے جائیں گے، ہلینا وائٹ
04:17
اس کے علاوہ رابرٹ بیلز نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ امریکی فوج نے اس سے متعلق یہ طبی معلومات بھی ملٹری کورٹ کو مہیا نہیں کی تھیں کہ اس کی دو افغان دیہات میں خونریز کارروائیوں کا تعلق ملیریا کی ایک ایسی دوائی سے بھی ہو سکتا تھا، جو انسانی سوچ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
رابرٹ بیلز کے ان دونوں دعووں کو ملٹری اپیلز کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل بینچ نے متفقہ طور پر بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔
پانچ سال قبل افغانستان میں صرف ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں 16 افغان شہریوں کے قتل کا یہ واقعہ ان سب سے بڑے مظالم میں سے ایک ہے، جن کا افغان جنگ کے دوران اب تک ارتکاب کیا گیا ہے۔
2012ء میں رابرٹ بیلز کے ہاتھوں افغان باشندوں کے اس قتل عام کے بعد ہندو کش کی اس ریاست میں مشتعل شہریوں نے پرتشدد مظاہرے بھی شروع کر دیے تھے، جن کی وجہ سے تب امریکی فوج کو وہاں اپنی عسکری کارروائیاں کچھ عرصے کے لیے روکنا بھی پڑ گئی تھیں۔
افغانستان: ’’جنگ میں زندگی‘‘
ایرانی فوٹوگرافر مجید سعیدی کی تصویریں یہ بتاتی ہیں کی جنگ نے عام افغانیوں کی زندگیوں کو کس طرح متاثر کیا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
کھلونا نہیں
یہ کوئی کھلونا نہیں ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جنوب میں دو بچیاں مصنوعی بازو سے کھیل رہی ہیں۔ اس تصویر سے ایرانی فوٹوگرافر مجید سعیدی کی تصویروں کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بہترین فوٹوگرافر
مجید سعیدی کی تصویریں خبروں کے پیچھے چھپی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ ایسی کہانیاں جو صرف خوف اور اذیتوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ سعیدی کو کئی دیگر انعامات کے علاوہ سن 2013 میں ’ورلڈ پریس فوٹو ایوارڈ‘ سے بھی نوازہ جا چکا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بچوں کی دنیا
سعیدی کی زیادہ تر تصاویر میں بچوں کی زندگی اور ان کے درپیش مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ بچہ بارودی سرنگ کے پھٹنے کی وجہ سے اپنے دونوں بازوؤں سے محروم ہو گیا تھا۔
تصویر: Majid Saeedi
واضح نشانیاں
نہ صرف چہرے اور ان پر موجود زخموں کے نشانات بلکہ افغانستان کی تباہ حال عمارتیں بھی جنگ کی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ گھروں کے کھنڈرات، ہر جگہ گولیوں کے سوراخوں اور تباہ شدہ عمارتوں سے جنگ کی تباہی عیاں ہو رہی ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
واضح تضاد
افغانستان کی خوبصورت سرزمین پر جگہ جگہ جنگ کے دوران ہونے والے تباہی بھی نمایاں ہے۔ ایک ہی جگہ پر خوبصورتی اور دل کو ہلا دینے والے خوفناک مناظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
نشے کی لت
نشے کی لت افغانستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ نوّے فیصد افیون پیدا کرنے والا ملک ہے اور یہاں نشے کے عادی افراد کی تعداد بھی اسی لحاظ سے زیادہ ہے۔ افغانستان میں نشے کی لت میں مبتلا بچوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے لیکن اقوام متحدہ کے اعداو شمار کے مطابق وہاں تین لاکھ بچے نشہ کرتے ہیں۔
تصویر: Majid Saeedi
پولیس پریڈ
کابل میں صبح سویرے پولیس پریڈ: گزشتہ کئی برسوں سے مغربی حکومتیں افغان پولیس کی تربیت کا عمل جاری رکھے ہوئی ہیں۔
تصویر: Majid Saeedi
افغان تعلیم
ایک مدرسے کے استاد سے سزا ملنے پر بچے کے چہرے پر درد دیکھا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں اسکولوں کا یکساں نظام موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر بچوں کو معاشی حالات کی وجہ سے اسکولوں میں جانے کی بجائے کام کاج پر بھیجا جاتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
تعلیمی زوال
افغانستان میں سن 1979ء سے جاری ’خانہ جنگی‘ نے وہاں کے بچوں اور نوجوانوں کی صورتحال کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 72 فیصد مردوں اور 93 فیصد خواتین کے پاس اسکول کی سند نہیں ہے۔ مجموعی طور پر اس ملک کی 70 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
برقعہ اور باربی
خواتین کے لیے مدد: ملائیشیا کی ایک غیر سرکاری تنظیم خواتین کو مقامی سطح پر گڑیا تیار کرنے کے کورسز کرواتی ہے۔ اس تربیت کا مقصد خواتین کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہیں تاکہ وہ اپنا خرچ خود اٹھا سکیں۔
تصویر: Majid Saeedi
پہلوانی کا شوق
افغانی ویٹ لفٹر ایک مقابلے کے بعد آرام کر رہا ہے۔ طالبان کے دور حکومت میں باڈی بلڈنگ جیسے کھیلوں پر سختی سے پابندی عائد تھی۔ یہ کھیل ایک مرتبہ پھر افغانستان بھر میں مقبول ہو رہا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
کھنڈرات میں فصل
گزشتہ تیس برسوں میں سویت یونین اور نیٹو افواج کی جنگ نے جگہ جگہ اپنے نشانات چھوڑے ہیں۔ افغانیوں کو روزانہ ان نشانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
لازمی مضمون قرآن
قرآن کو حفظ کرنے کے لیے انتہائی توجہ اور پرسکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ افغانستان کے جنوبی شہر میں ایک لڑکا قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے۔
تصویر: Majid Saeedi
مقبول کھیل
عوامی سطح پر جانوروں کے مقابلے افغان روایات کا لازمی جزو ہیں۔ ملک بھر میں مرغوں اور کتوں کے مقابلوں کا انعقاد کروایا جاتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بند زندگی
افغانستان میں ذہنی طور پر بیمار افراد کو غیر انسانی حالات اور معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ مغربی شہر ہرات کے ایک پاگل خانے میں مریضوں کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا گیا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
حقیقی ویرانی
اکرم کو بازوؤں کی بجائے دو مصنوعی اعضاء کا سہارا ہے۔ رات کو سوتے وقت وہ ان ’اعضاء‘ کو دیوار کے ساتھ لٹکا دیتا ہے۔ اکرم ان ہزاروں افغان بچوں میں سے ایک ہے، جن کے مقدر ایسے ہی ہیں۔ وہ مقدر جنہیں ایرانی فوٹو گرافر اپنی تصویروں کے ذریعے چہرے فراہم کر رہا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
فوٹو گرافر کا مشن
مجید سعیدی کے بقول شروع ہی سے ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ انسانی تشدد کو تصویروں کی مدد سے منظر عام پر لایا جائے۔ افغان جنگ کو موضوع بنانے کا خیال انہیں اس وقت آیا، جب وہ ریڈ کراس کے ساتھ کام کرتے ہوئے جنگ کے متاثرین سے ملے۔