افغان شہریوں کو یورپ سے بے دخل نہ کریں، کابل کی اپیل
12 جولائی 2021افغانستان ان دنوں متعدد بحرانوں سے دوچار ہے۔ ایک طرف عسکریت پسند ملک کے مختلف علاقوں پر تیزی سے قبضہ کررہے ہیں، حالانکہ سرکاری فورسز ان کا مقابلہ کررہے ہیں۔ دوسری طرف اندرون ملک خاندانوں کی نقل مکانی کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جبکہ کووڈ کی تیسری لہر نے حالات کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
اس سنگین صورت حال کے مد نظر افغانستان حکومت نے یورپی ملکوں سے درخواست کی ہے کہ وہ افغان شہریوں کی جبری ملک بدری کم از کم تین ماہ کے لیے موخر کردیں۔
افغانستان کی مہاجرین اور وطن واپسی کی وزارت نے ایک بیان میں کہا،”ملک میں دہشت گرد گروپ طالبان کی طرف سے تشدد میں اضافہ اور کووڈ انیس کی وبا کی تیسری لہرکی وجہ سے بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور یہ لوگوں کے لیے پریشانی اور مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔"
اس وقت بہت سے یورپی ممالک افغان شہریوں کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں جنگ زدہ ملک میں واپس بھیج رہے ہیں۔ مثال کے طورپر جرمنی سے افغانوں کے گروپ کو بے دخل کرکے کابل بھیجا جا رہا ہے۔
بدھ کے روز ہی جرمنی سے بے دخل کردیے جانے والے 27 افغان شہری کابل پہنچے۔ یہ دسمبر 2016 کے بعد سے جرمنی سے بے دخل کرکے افغانستان بھیجے جانے والے شہریوں کا چالیسواں گروپ تھا۔ برلن اب تک پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند 1104 طالبان کو واپس بھیج چکا ہے۔
افغانستان کی مہاجرین اور وطن واپسی کی وزارت نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ یورپ سے افغانوں کی واپسی پریشان کن ہے۔”ہم میزبان ملکوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ افغان شہریوں کو اگلے تین ماہ تک جبری ملک بدر کرنے سے گریز کریں۔"
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق افغان مہاجرین کی سب بڑی اکثریت ہمسایہ ملک پاکستان میں مقیم ہے جس کے بعد ایران اور یورپ کا نمبر آتا ہے۔ ادارے نے 2018 میں افغانستان سے پچیس لاکھ پناہ گزینوں کا اندراج کیا تھا۔
متنازع فیصلہ
یورپی ملکوں سے افغان شہریوں کی جبراً بے دخلی کا معاملہ خاصا متنازع ہے۔ اس اقدام کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پناہ کے خواہش مند افراد کو جنگ زدہ ملک میں واپس بھیجنا انتہائی خطرنا ک ہے۔
امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی فورسز نے یکم مئی سے افغانستان سے حتمی انخلاء شرو ع کر دیا ہے جس کے بعد سے ملک میں غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ طالبان عسکریت پسندوں کی جانب سے تقریباً روزانہ حملے ہو رہے ہیں اور فوجی کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند بھی ملک میں سرگرم ہوگئے ہیں۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے غیر مستقل امن مذاکرا ت کے ساتھ ساتھ تصادم کی وجہ سے ملک کی سکیورٹی کی صورت حال مسلسل ابتر ہوتی جارہی ہے۔ افغانستان گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔
یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند
یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افغان شہریوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یورپی یونین کے ادارہ شماریات یورو اسٹیٹ کے مطابق گزشتہ برس تک سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینے والے افغانوں کی تعداد چارلاکھ سولہ ہزار چھ سو تھی۔ اس میں 44 ہزار 190نے گزشتہ برس پہلی مرتبہ درخواست دی تھی۔
اطالوی وزیر اعظم ماریو دراگی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجی کے انخلاء کے بعد یورپ کو افغان تارکین وطن کی نئی لہر سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
اس برس کئی یورپی ملکوں نے ان افغانوں کو اپنے یہاں پناہ دینے کا اعلان کیا تھا جنہوں نے افغانستان میں فوجی مشن کے دوران ان ملکوں کے لیے کام کیا تھا اور اب ان کی جان کو طالبان کی طرف سے خطرہ لاحق ہے۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی تشدد کی وجہ سے اس کے امدادی کارکنوں کو بھی کافی مشکلات پیش آرہی ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ رامز علی اکبروف نے کہا کہ موجودہ صورت حال کی وجہ سے ”وہاں پہلے سے ابتر صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے۔" ملک کے تقریباً 33.5 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خشک سالی اور کووڈ جیسے مسائل تو اپنی جگہ پہلے سے ہی موجود ہیں لیکن”فوجی سرگرمیوں میں اضافہ اور تشدد اور جنگ میں اضافہ کی وجہ سے لوگوں کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔"
کورونا کی وجہ سے افغانستان میں اب تک ایک لاکھ 35 ہزار کیسز سامنے آچکے ہیں جب کہ پانچ ہزار سات سو اموات درج کی گئی ہیں۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)