افغان شہر درقد پر طالبان قابض
28 اکتوبر 2015افغانستان کے شورش زدہ شمالی صوبے تخار کے ضلع درقد پر دوبارہ قبضے کے لیے حکومتی فوج اور عسکریت پسندوں کے در میان لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اِس شہر پر آج بدھ کی علی الصبح طالبان عسکریت پسندوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ تخار صوبے کے گورنر کے ترجمان ثنا اللہ تیمور کے مطابق درقد شہر پر قبضے کے لیے عسکریت پسندوں نے بھاری اور ہلکے ہتھیاروں سے لیس ہو کر حملہ کیا۔ صوبائی پولیس کے ترجمان عبد الخلیل آصف کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے شہر کے مرکز پر کئی اطراف سے حملہ کیا اور اِسی باعث وہ قبضہ کرنے میں کامیاب رہے۔ حملے کی شدت کے باعث حکومتی سکیورٹی فورسز درقد شہر کے مرکزی حصے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئیں۔ اِس کے بعد طالبان نے شہر پر اپنا جھنڈا لہرا دیا۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ذرائع ابلاغ کو ایک ای میل کر کے درقد پر قبضے بارے مطلع کیا۔ مجاہد نے بھی درقد پر قبضے کی جنگ بدھ کی علی الصبح شروع کرنے کا بتایا۔ طالبان کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ شہر سے پسپا ہوتی پولیس کے ایک درجن سے زائد اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ طالبان کے ترجمان کی ای میل میں صرف دو جہادیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ شہر کی انتظامیہ کے مطابق اِس وقت حکومتی عمارتوں بشمول پولیس ہیڈکوارٹر پر عسکریت پسندوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
تخار صوبے کی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ طالبان جنگجوؤں اور حکومتی فورسز کے درمیان چھ گھنٹے تک درقد پر قبضے کی جنگ جاری رہی۔ اِن کے مطابق حکومتی سکیورٹی فورسز ضرور پیچھے ہٹی ہیں لیکن شہر پر دوبارہ قبضے کی کوشش شروع کر دی گئی ہے۔ صوبائی صدر مقام طالقان میں بھی صوبائی انتظامیہ شہر کی بازیابی کے حوالے سے خصوصی سکیورٹی اجلاس کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہے۔ دو روز قبل آنے والے زلزلے سے بھی درقد کے کئی علاقوں میں تباہی ہوئی تھی۔
تاخار کا صوبہ افغانستان کے انتہائی شورش زدہ صوبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ درقد وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان کی سرحد سے جڑا ہوا شہر ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں پائی جانے والی جہادی تحریکوں کے افراد دوسرے راستوں کے علاوہ اِسی صوبے کے ذریعے بھی افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔ کابل حکام کے مطابق طالبان کی صفوں میں وسطی ایشیائی ریاستوں کے انتہا پسند بھی شامل ہیں۔ ان میں خاص طور پر اسلامک موومنٹ برائے ازبکستان کے جنگجو نمایاں ہیں۔