1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدر کرزئی دوبارہ انتخاب کے لئے باقاعدہ امیدوار

رپورٹ: احمد ولی اچکزئی، ادارت: مقبول ملک4 مئی 2009

صدر حامد کرزئی نے افغانستان میں اگست کے مہینے ميں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے پیرکے روز کابل میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دئے جس کے بعد وہ کئی روزہ دورے پر امريکہ روانہ ہوگئے۔

حامد کرزئی چاہتے ہیں کہ افغان ووٹر انہیں ایک بار پھر صدر منتخب کرلیںتصویر: AP

قريب ساڑھے تين ماہ بعد ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے صدر کرزئی پير کی صبح کابل ميں افغان اليکشن کميشن کے دفتر ذاتی طور پر گئے۔ افغان صدر کے انتخابی کاغذات میں خود ان کو تو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا ہے مگر ساتھ ہی کريم خليلی اور محمد قسيم فہيم کو نائب صدر کے دوہرے عہدے کے لئے امیدوار بنایا گیا ہے۔

کريم خليلی اس وقت بھی افغانستان میں نائب صدر کے عہدے پر فائز ہيں جبکہ ماضی میں شمالی اتحاد کے ایک اہم رہنما قرار دیئے جانے والے محمد قسيم فہيم حامد کرزئی ہی کی صدارت میں وزیر دفاع کے عہدے پر فائز رہ چکے ہيں۔

امریکہ میں کرزئی باراک اوباما کے علاوہ پاکستانی صدر سے بھی ملیں گےتصویر: AP / Fotomontage: DW

افغانستان ميں ایسا نہیں ہے کہ حامد کرزئی کی کوئی سیاسی مخالفت نہیں کی جاتی۔ متعدد نامور شخصيات جن ميں کرزئی حکومت کے چند سابق وزراء بھی شامل ہيں، کئی ہفتوں سے ان کوششوں ميں ہیں کہ موجودہ صدر اور اب ایک بار پھر صدارتی اميدوار بن جانے والے حامد کرزئی کے خلاف کوئی طاقت ور اتحاد قائم کرسکيں۔

حامد کرزئی کی سیاست اور ان کے طرز سیاست پر تنقید کرنے والے ان کے ان مخالفین کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی تو نہیں ملی تاہم ان کی یہ کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔

افغان صدارتی انتخابات کے لئے اب تک مجموعی طور پر درجنوں ممکنہ اميدوار کاغذات نامزدگی حاصل کر چکے ہيں تاہم ان ميں سے ابھی تک يہ کاغذات صرف حامد کرزئی اور دو ديگر اميدواروں نے ہی جمع کرائے ہيں۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ نظام الاوقات کے مطابق صدارتی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی مدت ابھی ایک ہفتہ بعد پوری ہوگی۔

جہاں تک حامد کرزئی کی بطور صدارتی اميدوار مقبوليت کا سوال ہے تو افغانستان ميں امن کی بگڑتی ہوئی صورت حال، مسلسل بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور پھر اتحادی فوج کی جنگی کارروائيوں اور طالبان کے مسلح حملوں ميں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے ختم نہ ہونے والے سلسلے کی وجہ سے حامد کرزئی کو حاصل عوامی تائید کافی کم ہو چکی ہے۔

افغانستان میں پوست کی کاشت آج تک ختم نہیں ہو سکیتصویر: picture-alliance/ dpa

طالبان دور کے خاتمے کے بعد سے افغانستان میں سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کے عہدے پر فائز چلے آ رہے حامد کرزئی کو بیرون ملک سے ملنے والی سیاسی حمایت بھی پچھلے کچھ عرصے میں قدرے کم ہوگئی ہے جس کی بڑی وجوہات ملک میں ہر جگہ نظرآنے والی بدعنوانی اور پوست کی کاشت کے خلاف ان کی ناکام رہنے والی حکومتی پالیسیاں ہيں۔

کابل میں حکومتی سربراہ کے طور پر حامد کرزئی کے سیاسی فیصلے اور ملکی پارلیمان کی طرف سے کی جانے والی قانون سازی مخصوص حالات میں اندرون اور بیرون کس طرح کے شدید رد عمل کا سبب بنتے ہیں، اس کا اندازہ ابھی کچھ عرصہ قبل منظور کئے جانے والے ایک متنازعہ قانون سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

کابل میں ملکی پارلیمان نے شیعہ اقلیتی آبادی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حوالے سے ایک نیا قانون منظور کیا اور صدر کرزئی کو بھی بظاہر اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لیکن پھر شیعہ خواتین کے بہت سے حقوق کو کافی محدود کردینے والے اس نئے قانون پر مغربی ملکوں، حتیٰ کہ امریکی صدر اوباما کی طرف سے بھی ذاتی طور پر سخت تنقید کی گئی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ صدر کرزئی اکثريتی رائے سے کی جانے والی اس بہت متنازعہ پارلیمانی قانون سازی پر نئے سرے سے غور وفکر کا حکم دینے پر مجبور ہوگئے۔ حامد کرزئی کے سیاسی مخالفین ان کے دور اقتدار کے ایسے ہی فیصلوں کی مثالیں دے کر ان پر تنقید کرتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں