افغان صدر کی طرف سے طالبان کو مشروط سیز فائر کی پیش کش
19 اگست 2018
افغان صدر اشرف غنی نے عید کے موقع پر طالبان جنگجوؤں کو فائر بندی کی مشروط پیش کش کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ بندی کو کامیاب بنانے کی خاطر دونوں فریقین کو عمل کرنا ہو گا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے افغان صدر اشرف غنی کے حوالے سے بتایا ہے کہ کابل حکومت طالبان کے ساتھ سیز فائز پر رضا مند ہے۔ غنی نے اتوار کے دن ملک کے 99 ویں یوم آزادی کے موقع پر کہا کہ اگر طالبان اس سیز فائر کا احترام کریں گے تو اس کی مدت میں توسیع کر دی جائے گی، ’’اس سیز فائر پر دونوں اطرف کو عمل کرنا چاہیے اور اس کے تسلسل اور کامیابی کا انحصار طالبان پر ہو گا۔‘‘
اشرف غنی نے کہا کہ اگر طالبان اس پیش کش پر اتفاق ظاہر کرتے ہیں تو پیر اور منگل کو اس پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔ افغانستان میں انہی دنوں عید قربان منائی جا رہی ہے۔ اشرف غنی نے امید ظاہر کی ہے کہ اس سیز فائر پر کامیاب عملدرآمد ہو سکے گا اور اس جنگ بندی کا دورانیہ بیس نومبر تک بڑھا دیا جائے گا۔
بلند حوصلہ افغان فوجی خواتین
02:25
طالبان کی طرف سے فوری طور پر اس پیش کش پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ کابل حکومت نے جون کے مہینے میں عید الفطر کے موقع پر بھی طالبان کے ساتھ سیز فائر کیا تھا۔ تب طالبان نے اس تین روزہ جنگ بندی پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ تاہم بعد ازاں ان جنگجوؤں نے افغان صدر کی وہ درخواست مسترد کر دی تھی کہ اس میں توسیع کر دی جائے۔
افغان صدر نے سیز فائر کی یہ پیش کش ایک ایسے وقت میں کی ہے، جب ایک دن قبل ہی طالبان کے سربراہ نے کہا تھا کہ جب تک افغانستان میں غیر ملکی فوجی موجود ہیں، تب تک اس ملک میں قیام امن ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔
طالبان نے اس موقف بھی دہرایا کہ افغانستان میں پائیدار قیام امن کی خاطر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات ناگزیر ہیں۔ عید قربان کے موقع پر جاری کردہ اپنے بیان میں طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا کہ وہ اپنے ’اسلامی مقاصد‘ کے حصول کے لیے پرعزم ہیں۔ کابل حکومت کی طرف سے جنگ بندی کی یہ نئی کوشش ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے، جب طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہ اپنے حملوں میں تیزی لائے ہوئے ہیں۔
ع ب / ع ا/ خبر رساں ادارے
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔