1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدر کی پاکستانی وزیر اعظم کو کابل آنے کی دعوت

شادی خان سیف، کابل
17 مارچ 2018

افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے مشير برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعه سے ہفتے کو دارالحکومت کابل ميں اپنی ايک ملاقات کے دوران پاکستانی وزیر اعظم کو افغانستان کا دوره کرنے کی رسمی دعوت دی ہے۔

Afghanistan Kabul Friedens-Konferenz
تصویر: Reuters/O. Sobhani

یوں تو یه رسمی دعوت معمول کی سفارت کاری دکهائی دیتی ہے تاہم تجزیه کار دونوں ممالک کے مابین سرد مہری کے شکار تعلقات کے پس منظر میں اسے خاصی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ صدر غنی نے ہفته سترہ مارچ کو کابل میں صدارتی محل کے ایوان دلکشا میں قومی سلامتی کے مشیر جنجوعه اور ان کے ساتھ دورہ کرنے والے پاکستانی وفد کی میزبانی کی۔

صدارتی اعلامیے کے مطابق اس ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے مابین متعدد موضوعات پر بات چیت کے علاوہ طالبان کو امن مذاکرات کی پیشکش پر بھی تبادله خیال ہوا۔ اس ملاقات کے دوران خطے میں باہمی رابطوں اور تعاون کی اہمیت اور فوائد پر بات چیت کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروہوں کی فعالیت اور ان سے نمٹنے سے متعلق امور بھی زیر بحث آئے۔ آخر میں صدر محمد اشرف غنی نے افغانستان اور پاکستان کے مابین ریاستی سطح پر مذاکرات شروع کرنے کی خاطر کابل پروسس کی دوسری نشست کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو کابل کا دوره کرنے کی رسمی دعوت دی۔

افغان ایوان زیریں (ولسی جرگه) کے رکن اکبر ستانکزی کے بقول اس بات کے امکانات بہت زیاده ہیں که پاکستان، طالبان پر اپنے مبينہ اثر و رسوخ کا فائده اٹهاتے ہوئے انہیں امن مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے پر آمادہ کرسکے۔ ان کے بقول ناصر جنجوعه کا یه سفر بهی اسی ضمن میں اعتماد سازی کا حصه ہے۔ تجزیه نگار بریگیڈیئر محمد عارف کے بقول اس معاملے میں پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ساتھ دیگر بڑی قوتیں مثلاً چین، ایران، روس اور امریکا کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا، ’’افغانستان میں قریب تمام علاقائی قوتیں اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ طالبان اب محض پاکستان پر انحصار نہیں کر رہے، ان کے اوروں سے بهی رابطے ہیں جو کوئی چهپی ہوئی بات نہیں۔ کچه ہی دنوں بعد طالبان کی جانب سے جنگ کی نئی مہم کا اعلان متوقع ہے، جو وه گزشته سولہ برس سے کرتے آئے ہیں، تو دیکها جائے گا که جنگ کا اعلان سامنے آتا ہے یا مذاکرات کے لیے مشروط یا مکمل آمادگی ظاہر کی جاتی ہے۔‘‘

ناصر جنجوعه نے ايک ایسے موقع پر افغانستان کا دوره کیا، جب وہاں موسم بہار کی آمد کے ساتھ طالبان نئے حملوں کی تياری ميں مصروف ہيں۔

حکومت اور اس کے اتحادی، بالخصوص امریکا نے واضح کر رکها ہے که اگر طالبان نے امن مذاکرات کی پیشکش کو قبول نہیں کیا تو ان کے ٹهکانوں پر ماضی کے برعکس زيادہ جارحانه انداز میں زمینی اور فضائی کارروائیاں کی جائیں گی۔ گزشته برس اگست میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی پالیسی کے اعلان کے بعد سے ان کارروائیوں میں نمایاں اضافه دیکها جا رہا ہے۔

دوسری جانب طالبان نے گزشته ایک ماه میں غیر معمولی طور پر دو مرتبہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تنازعے کے حل کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ البته صدر غنی کی جانب سے امن مذاکرات کی جامع پیشکش، جس میں طالبان کو سیاسی تنظیم کے طور پر قبول کرنے، ان کے قیديوں کو رہا کرنے اور پابندیاں ختم کرنے کا وعده کیا گیا ہے، کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اسی دوران طالبان نے افغان اور غیر ملکی فوجیوں کو نشانه بنانے کا سلسله بھی جاری رکها ہوا ہے۔

افغان چیف ایگزیکیٹیو عبدالله عبدالله کے دفتر کے مطابق ان سے ہوئی ملاقات میں پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعه نے کہا که طالبان کے پاس اب جنگ کو جاری رکهنے کا کوئی جواز نہیں رہا اور امن مذاکرات کے لیے صدر غنی کی دعوت ایک بے مثال پیشکش ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں