افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں افغان صدر نے اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ طالبان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ انتہا پسندی کی یہ جنگ نہیں جیت سکتے اور انہیں قیام امن کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنانا پڑے گا۔ افغان صدر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی عوام کی نظریں اب امریکا کی جانب ہیں۔
واضح رہے پچھلے ماہ صدر ٹرمپ کی جانب سے نئی افغان پالیسی وضع کی گئی تھی۔ اس کے بعد امریکی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کے رکنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، جس کا آغاز سن دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہوا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے تحت امریکی افواج کی تعداد میں اضافے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ٹرمپ نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکا کے اہداف بالکل واضح ہیں اور امریکا چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا کیا جائے۔ مزید یہ کہ امریکی افواج افغانستان میں ہی رہیں گی اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں گے۔
افغان صدر غنی نے اپنی تقریر میں مزید کہا، ’’ہمارے پاس پڑوسی ممالک کے ساتھ بات چیت کا اچھا موقع ہے اور یہ کہ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ہم کس طرح مل کر کام کر سکتے ہیں۔‘‘
جرمن فوٹوگرافر ’جنگ کی ہولناکیوں‘ کی تلاش میں
آنڈی اسپیرا ایک جرمن فوٹوگرافر ہے، جو دنیا کے تقریباً تمام بحران زدہ ممالک اور خطّوں بشمول عراق، افغانستان، شام اور نائیجیریا جا چکا ہے اور ہمیشہ ایسی تصویریں لے کر آتا ہے، جو دیکھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
تصویر: J. Idrizi
جنگوں کا فوٹوگرافر
1984ء میں جرمن شہر ہاگن میں پیدا ہونے والے آنڈی اسپیرا نے ابتدائی تعلیم کے بعد وسطی امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کے سفر کیے۔ اسی دوران اُنہیں فوٹوگرافی کا شوق ہوا۔ وہ بار بار بحران زدہ خطّوں میں جاتے ہیں۔ وہ صرف اور صرف بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگرافی کرتے ہیں اور طویل المدتی منصوبوں پر کام کرتے ہیں۔ بے شمار مشہور اخبارات اور جریدوں میں اُن کی تصاویر شائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: J. Idrizi
طویل المدتی منصوبہ ’کشمیر‘
پاکستان اور بھارت کا سرحدی خطّہ کشمیر دنیا بھر میں سب سے زیادہ فوجی موجودگی والا خطّہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں 1989ء سے جاری تنازعہ اب تک تقریباً ستّر ہزار انسانوں کو نگل چکا ہے۔ اپنے طویل المدتی منصوبے ’کشمیر‘ کے لیے آنڈی اسپیرا کو 2010ء میں ’لائیکا آسکر بارناک ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا۔ اس تصویر کے بارے میں اسپیرا بتاتا ہے کہ ان دو چھوٹے بچوں نے جنگ کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔
تصویر: A. Spyra
بحرانی خطّوں کا روزمرہ کا معمول
مئی 2014ء میں آنڈی اسپیرا نے مزارِ شریف کی نیلی مسجد میں جمعے کی نماز کی یہ تصویر اُتاری۔ پندرہویں صدی میں بننے والی اس مسجد کے بارےمیں مشہور ہے کہ وہاں پیغمبر اسلام کے داماد دفن ہیں، اسی لیے افغانستان بھر سے زائرین یہاں آتے ہیں۔ اسپیرا کے مطابق وہ بلیک اینڈ وائٹ میں اس لیے تصویریں بناتے ہیں کیونکہ اس طرح ’تصویر کا جذباتی پہلو زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے‘۔
تصویر: Andy Spyra
محاذ کے قریب اسکول کی کلاس
جنگ کے دوران بھی لوگ اپنے روزمرہ معمولات انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جون 2014ء میں اسپیرا نے یہ تصویر مزارِ شریف کے ایک اسکول میں اُتاری۔ یہاں خاص طور پر نمایاں بات اس تصویر میں موجود افراد کے چہروں کے غیر واضح خطوط اور سامنے سے آنے والی تیز روشنی ہے:’’زیادہ تر غیر واضح تصاویر کے ذریعے مَیں جذباتی پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہوں۔‘‘
تصویر: Andy Spyra
بازار کی رنگا رنگی
طالبان کی طرف سے کسی حملے کے خوف کے باوجود افغان شہری اپنی اَشیائے ضرورت خریدنے کے لیے بازار بھی جاتے ہیں۔ وہیں آنڈی اسپیرا نے مئی 2015ء میں یہ تصویر بنائی۔ وہ اپنی تصاویر میں براہِ راست جنگ کے مناظر دکھانے کی بجائے قریبی علاقوں میں چلتی پھرتی زندگی کو موضوع بناتے ہیں۔
تصویر: Andy Spyra
شام اور عراق کی سرحد پر
کُرد ملیشیا، النصرہ فرنٹ اور شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپوں کے باعث لوگوں کو شام کے کُرد علاقے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آنڈی اسپیرا نے یہ تصویر عراقی شامی سرحد پر فِش خابور کے مقام پر بنائی، جہاں گھر بدر ہونے والے دو لاکھ بیس ہزار انسانوں نے پناہ لی ہے۔
تصویر: A. Spyra
مہاجر کیمپ
جو شخص بھی شام سے زندہ سلامت باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ سرحد پار کسی مہاجر کیمپ میں پناہ کی امید کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق روزانہ کم یا شدید جھڑپوں کے پیشِ نظر کبھی سینکڑوں تو کبھی ہزاروں انسان پناہ کی تلاش میں اِس غیر سرکاری سرحدی گزر گاہ پر پہنچتے ہیں۔ پھر ان کا اندراج ہوتا ہے اور انہیں مختلف کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ کیمپ بھی جنگ ہی کا ایک چہرہ ہیں۔
تصویر: Andy Spyra
ایک تصویر محاذِ جنگ سے بھی
عام طور پر آنڈی اسپیرا جھڑپوں سے دور ہی رہتے ہیں اور زیادہ تر تصاویر لڑائی کے مرکز سے ہٹ کر واقع علاقوں میں اتارتے ہیں تاہم اس تصویر میں وہ شمالی شام میں راس العین کے مقام پر ہونے والی لڑائی کے بیچوں بیچ ہیں۔ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہے: کُرد عربوں کے خلاف، ترک کُردوں کے خلاف، اسلام پسند مسیحیوں کے خلاف اور سب مل کر حکومت کے خلاف۔
تصویر: A. Spyra
عراق کی مسیحی اقلیت
جون 2011ء میں آنڈی اسپیرا نے عراق میں الحمدانیہ کے مقام پر ایک رسمِ تدفین میں شرکت کی۔ اس علاقے کی اٹھانوے فیصد آبادی مسیحی ہے اور شامی کیتھولک چرچ اور شامی آرتھوڈوکس چرچ سے تعلق رکھتی ہے۔ اگست 2014ء سے لے کر اکتوبر 2016ء تک یہ شہر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے میں تھا۔ اس باعث یہاں کے متعدد عیسائی باشندوں کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔
تصویر: A. Spyra
نائیجیریا اور بوکو حرام
آنڈی اسپیرا کئی بار نائیجیریا بھی جا چکے ہیں۔ وہاں اُنہوں نے تقریباً 80 ایسی خواتین اور لڑکیوں کی تصاویر اُتاری ہیں، جو بوکوحرام کے قبضے میں رہیں۔ یہ باقاعدہ ان خواتین کو ایک جگہ بٹھا کر اُتاری گئی تصاویر ہیں، جیسی کہ اسپیرا عام طور پر نہیں اُتارتے۔ وہ انہیں مظلوم بنا کر پیش نہیں کرتے:’’ایک فوٹوگرافر ہونے کے باوجود میری بھی حدود ہیں۔ وہاں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے، جو مَیں کیمرے میں قید نہیں کر سکتا۔‘‘
تصویر: Andy Spyra
10 تصاویر1 | 10
غنی کے بقول، ’’میں پاکستان کو بات چیت کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ امن کے فروغ اور انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے مذاکرات کی میز پر آئیں اور خطے میں سیکورٹی اور علاقائی تعاون کو بڑھا کر خوشحالی کے سفر میں دونوں ملک ساتھ ساتھ چلیں۔‘‘
ایک اندازے کے مطابق امریکی حکومت افغانستان میں طالبان کو شکست دینے کی خاطر ایک طرف تو عسکری قوت بڑھانے پر غور کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی وہ مکالمت پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ اپنی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ افغان طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کی مدد کرتے ہوئے’’ دہشت گردوں کے نمائندوں‘‘ کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔
تاہم اسلام آباد حکومت اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ شدت پسندوں کو کسی قسم کی مدد مہیا نہیں کر رہی۔ پاکستان اس الزام کی بھی تردید کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس کی کوششیں نا کافی ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران 2001ء سے اس کے ساٹھ ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں ملکی سکیورٹی فورسز کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اسلام آباد کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے۔
افغانستان میں سب سے بڑا غیر ایٹمی بم گرنے کے مناظر