1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صوبے لوگر میں امریکی حملہ، نصف درجن سے زائد ہلاک

عابد حسین20 جولائی 2015

شورش زدہ جنوبی افغان صوبے لُوگر کے ایک ضلعے میں قائم ایک چیک پوائنٹ پر امریکی ہیلی کاپٹروں کے ایک حملے میں نصف درجن سے زائد افغان فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ لُوگر صوبہ میں طالبان جہادی خاصے متحرک اور سرگرم ہیں۔

تصویر: AFP/Getty Images

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق افغان دارالحکومت کابل کے جنوب میں واقع شہر برکی باراک پر کیے گئے امریکی حملے میں کم از کم سات فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ یہ حملہ افغان صوبے لُوگر کے ضلعے برکی باراک میں قائم ایک چیک پوائنٹ پر دو امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کیا گیا۔ ہیلی کاپٹروں کی کارروائی کے بعد چیک پوائنٹ میں آگ لگ گئی۔ حملے اور آگ کی زد میں آ کر کم از کم سات فوجی ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے ہیں۔ لوگر صوبے میں متعین افغان فوج کے کمانڈر عبد الرزاق نے ہلاکتوں کی تعداد چودہ سے کم کر کے سات بتائی ہے۔ پہلے چودہ فوجیوں کے ہلاک ہونے کا بتایا گیا تھا۔ جنوبی افغان صوبے لوگر کے ضلعی انتظامی گورنر محمد رحیم امین نے بھی چودہ ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی۔

امین کے مطابق یہ چیک پوائنٹ قطعاً کوئی مشتبہ مقام نہیں تھا اور حملے کے وقت اس پر افغان پرچم لہرا رہا تھا۔ لوگر صوبے کے گورنر کے ترجمان دین محمد درویش نے بتایا کہ یہ حملہ پیر کی صبح چھ بجے کے لگ بھگ کیا گیا۔ درویش نے بھی فوجیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔ قبل ازیں اِسی صوبے کے نائب پولیس چیف محمد وارا نے دس فوجیوں کے مارے جانے اور چار کے زخمی ہونے کا بتایا تھا۔ افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان کرنل برائن ٹرائی بُس نے کہا ہے کہ وہ اِس حملے سے آگاہ ہیں، جس میں امریکی فوجی ملوث ہیں اور اِس واقعہ کا تفتیشی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

جنوبی افغان صوبے لُوگر صوبہ میں طالبان جہادی خاصے متحرک اور سرگرم ہیں۔

خیال رہے کہ اِسی ضلعے میں گزشتہ برس دسمبر میں کیے گئے ایک امریکی فضائی حملے میں پانچ شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ افغانستان میں تیرہ برس تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران فضائی حملوں میں سویلین ہلاکتیں انتہائی اہم متنازعہ معاملہ رہا ہے اور انہی کے باعث کابل حکومت سخت بیان دیتی رہی ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی بسا اوقات ایسے حملوں پر ناراضی کا اظہار کرتے تھے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ افغانستان میں امریکا اور اُس کے اتحادی اپنا جنگی مشن گزشتہ برس دسمبر کے اختتام پر ختم کر چکے ہیں لیکن ابھی بھی کچھ نیٹو افواج ملک میں موجود ہیں، جو انسدادِ دہشت کے بعض آپریشنز میں شریک ہوتی رہتی ہیں۔ اِن آپریشنز میں فضائی حملے اور رات کے وقت مارے جانے والے چھاپے بھی شامل ہیں۔

پیر بیس جولائی کی صبح ہونے والا امریکی حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب طالبان جہادیوں نے حکومتی مقامات اور غیر ملکی فوجوں کے ٹھکانوں پر حملوں میں تیزی پیدا کر رکھی ہے۔ طالبان کے گرمائی حملوں میں شدت کے دوران ہی افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ مصالحتی عمل کو مزید تقویت دینے کا پروگرام بنایا ہے۔ حال ہی میں افغان حکام نے پاکستان میں مقیم طالبان رہنماؤں کے ساتھ اسلام آباد کے قریب مری میں ملاقات کی۔ اِس ملاقات میں فریقین نے اگلی ملاقات پر اتفاق ظاہر کیا تھا۔ چین،امریکا اور اقوام متحدہ نے اِس ملاقات کا اہتمام کرنے پر پاکستانی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے اِس اقدام کا خیرمقدم بھی کیا تھا۔ اسی طرح عیدالفطر کے پیغام میں طالبان کے روپوش لیڈر ملا عمر نے بھی مذاکرات کو جائز قرار دیا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں