افغان طالبان بچوں کو ٹیکے لگا کر خود کش بمبار بنا رہے ہیں
25 اگست 2014ایسے ہی ایک افغان لڑکے کا نام محب اللہ ہے، جسے ٹیکے لگا کر ذہنی طور پر ایک خود کش حملے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ گہری آنکھوں والے اس نابالغ لڑکے نے افغان حکام کو بتایا کہ اس کی کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد تھا، اپنے آپ کو ایک خود کش دھماکے کے ساتھ اڑا دینا۔
محب اللہ دھماکا خیز مواد سے تیار کردہ خود کش بم حملوں میں استعمال ہونے والی ایک جیکٹ پہنے جنوبی افغان صوبے قندھار میں علاقائی حکومت کے ہیڈ کوارٹرز کے سامنے کھڑا اپنی جان قربان کرنے پر بالکل تیار تھا کہ ابھی حال ہی میں افغان خفیہ سروس کے اہلکاروں نے اسے اپنی حراست میں لے لیا۔
اگلے دن اس سولہ سالہ لڑکے کو قندھار میں صحافیوں کے ایک گروپ کے سامنے پیش کیا گیا۔ محب اللہ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کا خاندان قندھار کے قریب ہی افغان صوبے ارزگان کا رہنے والا تھا۔ اس کا والد افغان طالبان کا ایک کمانڈر تھا، جو افغان فوج کے ایک مسلح آپریشن میں مارا گیا تھا۔
اس افغان نوجوان نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کے اہل خانہ کے لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ اس کے والد کا تعلق عسکریت پسندوں سے تھا۔ اپنے والد کی ہلاکت کے بعد محب اللہ اور اس کے اہل خانہ پاکستان چلے گئے جہاں انہوں نے اپنے رشتے داروں کے ہاں پناہ لے لی اور اس کے والد کو بھی پاکستانی علاقے ہی میں دفنایا گیا۔
محب اللہ کے بقول پھر اس کے والد کے ایک دوست نے اسے کہا کہ اسے بھی طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ مل جانا چاہیے۔ کچھ عرصے کے بعد اسے پاکستان میں ایک مذہبی مدرسے میں داخل کرا دیا گیا۔ اس کے ایک استاد نے اسے بعد ازاں عسکریت پسندوں کے ایک تربیتی مرکز میں پہنچا دیا، جہاں محب اللہ نے بیس روز تک عسکری تربیت حاصل کی۔
وہیں پر اسے یہ ترتبیت بھی دی گئی کہ خود کش بم حملوں کے لیے دھماکا خیز مواد والی جیکٹ کیسے استعمال کی جاتی ہے۔ محب اللہ نے صحافیوں کو بتایا کہ طالبان کے جس ٹریننگ کیمپ میں اسے عسکری تربیت دی گئی، وہاں اس کی عمر کی کئی دوسرے لڑکے بھی تھے۔
’’ہمیں کبھی آپس میں ایک دوسرے سے بات چیت کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔‘‘
محب اللہ نے افغان حکام کی موجودگی میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ کچھ عرصے بعد اسے احساس ہو گیا تھا کہ اس کے کچھ ہم جماعت خود کش حملوں میں مارے جا چکے تھے۔
’’ان میں سے ایک کا نام امان اللہ تھا، جو قندھار میں ایک خود کش بم دھماکے میں مارا گیا تھا۔‘‘
افغان حکام اور میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق سن 2013 میں افغانستان میں عسکری کارروائیوں میں 545 بچے ہلاک اور 1149 زخمی ہو گئے تھے۔ زیادہ تر ہلاکتیں طالبان کے بم حملوں میں ہوئی تھیں۔ گزشتہ برس افغانستان میں کم از کم 65 خود کش حملے بھی کیے گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے حملے بچوں اور نوجوان حملہ آوروں نے کیے تھے تاہم ان کی تعداد کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
محب اللہ نے صحافیوں کو بتایا، ’’میرے ایک استاد نے مجھے ایک ٹیکہ لگایا تھا، جس کے بعد مجھے خود میں ہیجان محسوس ہونے لگا تھا۔ مجھے لگتا تھا جیسے میں پاگل ہو گیا ہوں۔ میں اس قدر غصے میں تھا کہ میں بس اپنی جان لے لینا چاہتا تھا۔‘‘
افغانستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے بچوں کے حقوق سے متعلق شعبے کے ایک اہلکار صدران ببرک زئی کے بقول طالبان عسکریت پسندوں کی قیادت میں یہ رجحان عام ہے کہ وہ بچوں اور نابالغ نوجوانوں کو خود کش حملوں کے لیے تیار کرنے کی خاطر مخصوص ادویات کے ٹیکے لگاتے ہیں۔ ان کے بقول ایسے نوجوانوں کو ٹیکے لگا کر اس حد تک جذباتی بنا دیا جاتا ہے کہ ان کے دلوں میں موت کا خوف ختم ہو جاتا ہے اور یہ طالبان کی بربریت کا نیا پہلو ہے۔