افغان طالبان بیرون ملک مزید سفارتخانے کنٹرول کرنے کے خواہاں
25 مارچ 2023خواتین اور لڑکیوں پر پابندیوں کی وجہ سے مسلسل بین الاقوامی تنہائی کا شکار طالبان حکومت بیرون ملک مزید افغان سفارت خانوں کا انتظام سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان کے مطابق ان کی حکومت اپنے سفارتی عملے کو توسیع دینے پر عمل پیرا ہے۔
طالبان نے ابتدائی طور پر اگست دو ہزار اکیس میں اقتدار پر قبضے کے بعد زیادہ اعتدال پسند حکمرانی کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے بجائے بڑے پیمانے پر بنیادی آزادیوں کو کم کرنے والی پابندیاں اور دیگر اقدامات نافذ کر دیے تھے۔
اقوام متحدہ اور غیر ملکی حکومتوں نے خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں پر پابندیوں کی شدید مذمت کی اور بین الاقوامی برادری طالبان کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے سے محتاط رہی ہے حالانکہ کچھ ممالک نے ایک فعال سفارتی مشن برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان ممالک میں پاکستان، چین، ترکی اور قطر شامل ہیں۔
طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ویڈیو بیان میں کہا، ''امارت اسلامیہ افغانستان نے کم از کم 14 ممالک میں سفارت کار بھیجے ہیں اور بیرون ملک دیگر سفارتی مشنز کا چارج سنبھالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ سابق حکومت کے سفارت کار وزارت خارجہ کے ساتھ ہم آہنگی سے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
مجاہد کے مطابق طالبان انتظامیہ نے ایران، ترکی، پاکستان، روس، چین، قزاقستان اور دیگر عرب اور افریقی ممالک میں بھی اپنے سفارت کار بھیجے ہیں۔ انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ فروری میں ایرانی حکام نے تہران میں افغانستان کے سفارت خانے کا کنٹرول طالبان کو سونپ دیا تھا۔
مجاہد نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''بیرون ملک بہت سے سفارت خانے ہیں۔ امارت اسلامیہ تمام ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنا چاہتی ہے اور اچھی بات چیت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں امید ہے کہ امارت اسلامیہ کے ساتھ باضابطہ تعلقات شروع ہوتے ہی تمام ممالک میں سفارت خانے کھول دیے جائیں گے۔"
جنوری میں اقوام متحدہ میں تعینات اعلیٰ ترین خاتون عہدیدار امینہ محمد نے کہا تھا کہ طالبان بین الاقوامی شناخت اور افغانستان کی اقوام متحدہ کی نشست چاہتے ہیں، جو اس وقت اشرف غنی کی قیادت میں سابق حکومت کے پاس ہے۔
کابل اور قندھار میں طالبان وزراء سے ملاقات کے بعد انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے کے بعد کہا، ''(طالبان کو) تسلیم کرنا ہمارے پاس ایک برتری ہے اور ہمیں اسے برقرار رکھنا چاہیے۔‘‘
طالبان نے مڈل اسکول، ہائی اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کے لیے افغان لڑکیوں کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے اور ملازمت کے بیشتر شعبوں بشمول غیر سرکاری تنظیموں میں بھی خواتین کو کام کی اجازت نہیں ہے۔ طالبان نے خواتین کو سر ڈھانپنے کاحکم بھی دے رکھا ہے۔ پچھلے ہفتے نوعمر لڑکیوں کے بغیر نئے تعلیمی سال کے لیے اسکول دوبارہ کھل گئے۔ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی کو 18 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔
ش ر ⁄ م م (اے پی)