افغان طالبان نے نوجوان خاتون کو سنگسار کر دیا
3 نومبر 2015ملکی دارالحکومت کابل سے منگل تین نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس خاتون کو اس طرح سزائے موت دیے جانے کی ایک بہت پریشان کن ویڈیو افغان میڈیا پر دکھائی گئی ہے، جو مقامی حکام کے مطابق اس واقعے کی اصلی ویڈیو فوٹیج ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اس ویڈیو کی طوالت قریب 30 سیکنڈ ہے اور اس میں ایک ایسی خاتون کو کلمہ پڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس کی عمر بظاہر 19 اور 21 برس کے درمیان تھی۔ اس خاتون کو، جس کا نام رخسانہ بتایا گیا ہے، ایک گڑھا کھود کر اس میں گاڑھ دیا گیا تھا اور ویڈیو میں لوگوں کو اس کو پتھر مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی طرح موقع پر موجود افراد اس خاتون کو پتھر مارتے رہے اور اس خاتون کی طرف سے کلمہ پڑھنے کی آواز مسلسل بلند ہوتی رہی۔
افغان صوبے غور کی خاتون گورنر سیما جوئندہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ رخسانہ کو اس طرح سنگسار کرنے کا واقعہ قریب ایک ہفتہ قبل غلمین میں پیش آیا۔ یہ علاقہ صوبے غور کے دارالحکومت فیروز کوہ سے قریب 40 کلومیٹر یا 25 میل کے فاصلے پر ہے۔
سیما جوئندہ نے، جو افغانستان میں صوبائی گورنر کے فرائض انجام دینے والی صرف دو خواتین میں سے ایک ہیں، بتایا، ’’رخسانہ کو طالبان، مقامی مذہبی رہنماؤں اور غیر ذمہ دار مسلح وار لارڈز نے سنگسار کیا۔‘‘ صوبے غور کی گورنر نے کہا، ’’حکام کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق رخسانہ کے خاندان نے اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کر دی تھی اور وہ ایک ایسے نوجوان مرد کے ہمراہ فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھی، جو اس کا ہم عمر تھا۔‘‘
سیما جوئندہ نے اس ہلا دینے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کابل حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان عسکریت پسندوں کو غور سے نکالنے کے لیے مسلح آپریشن کرے۔ انہوں نے زور دے کر کہا، ’’یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے لیکن یہ آخری نہیں ہو گا۔ خواتین کو یوں تو پورے افغانستان میں ہی مسائل کا سامنا ہے لیکن غور میں صورت حال خاص طور پر تشویشناک ہے۔‘‘
اے ایف پی نے مقامی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس نوجوان مرد کو سنگسار نہیں کیا گیا، جس کے ساتھ رخسانہ مبینہ طور پر فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس افغان نوجوان کے بارے میں کوئی دیگر تفصیلات بھی نہیں بتائی گئیں کہ وہ کون ہے اور اس وقت کہاں ہے۔
غور میں صوبائی پولیس کے سربراہ مصطفیٰ محسنی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا، ’’یہ واقعہ ایک ایسے علاقے میں پیش آیا، جو طالبان کے کنٹرول میں یے۔ یہ واقعہ (اس صوبے میں) اس سال کے دوران اب تک کا پہلا واقعہ ہے۔‘‘