1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کا ماضی، حال اور مستقبل

4 ستمبر 2021

افغانستان میں اس وقت سیاسی بے چینی و بے سکونی کا دور دورہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری لچکداری کا مظاہرہ کرنے والے طالبان کے ساتھ دو طرفہ معاملات کو آگے بڑھائے۔

USA Raffat Saeed
تصویر: Privat

30 اگست 2021 کو آخری امریکی فوجی کے افغانستان سے انخلا  کے بعد کابل کی سڑکوں پر طالبان کے جشن کے مناظر ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھ کر مجھے 20 سال قبل پیش آنے والے واقعات یاد آگئے کہ کس طرح امریکی صدر جارج بش نے 9/11 کے حملوں کے بعد  2001 میں افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔۔۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ کا آغاز

جس وقت امریکہ نے افغانستان پر حملوں کا آغاز کیا، میں اس وقت افغانستان کے مشرقی شہر قندھار میں تھا، بی باون بمبار کی گھن گرج زمین کو ہلا کر رکھ دیتی تھی، آج بھی ان آوازوں کو محسوس کرکے دل کانپ جاتا ہے۔ کابل میں ایک من پسند لبرل حکومت قائم کی گئی اور جو لوگ طالبان کے ظلم اور جبر سے پریشان تھے انہوں نے سکھ کا سانس لیا، یورپ اور امریکہ کی مالی، سیاسی اور معاشی امداد کے نتیجے میں بننے والی حکومت میں 3 مرتبہ انتخبات بھی ہوئے لیکن افغانستان میں سیاسی استحکام نہیں آسکا۔ امریکہ نے اسی کمی کو محسوس کرتے ہوئے دوحہ قطر میں طالبان کے سیاسی ونگ کو دفتر قائم کرنے کی اجازت دلوائی اور آگے چل کر طالبان سے طویل مذاکرات کے بعد امریکی افواج کے انخلا کا معاہدہ طے پا گیا۔ امریکہ نے اس معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے افغانستان سے اپنی افواج کو نکال لیا۔

افغان قیادت سے عالمی برادری کی بات چیت مفید ثابت ہو سکتی ہےتصویر: Dimitar Dilkoff/AFP

روسی افواج کا انخلا، خانہ جنگی

مجھے وہ مناظر بھی ذہن نشین ہیں جب روسی افواج افغان مجاہدین سے شکست کھا کر ٹینکوں پر بیٹھ کر واپس لوٹ رہی تھی۔ میں نے ISI  افغان سیل کے سربراہ بریگیڈیئر یوسف کے پاس ایک تاریخی تصویر بھی دیکھی تھی جو افغانستان کے کسی اندرونی مقام پر لی گئی تھی، خیمہ کے اندر مدھم روشنی میں اس وقت کے CIA کے سربراہ ویلیم کبسی، ISI کے سربراہ، گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود، پروفیسر سیاف اور جلال الدین حقانی ایک نقشہ کے گرد بیٹھےتھے۔ تصویر سے تاثر یہی ملتا تھا کہ روسی افواج سے نمٹنے کی حکمت عملی طے کرتے وقت تصویر بنائی گئی ہے، پھر ان رہنماوں کا امریکہ صدر ڈونلڈ ریگن نے جس طرح واشگنٹن میں استقبال کیا، اس سے امریکیوں کی افغان عوام سے قربت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا لیکن یہ قربت پہلے بے رخی، پھر لاتعلقی اور پھر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بدل گئی، 1996 میں مجاہدین کے خلاف طلبان کا غلبہ ہوا تو امریکہ نے اسے بھی خوش آمدید کہا۔

یورپی یونین افغان طالبان کے ساتھ روابط قائم کرنے پر تیار

اس وقت ISI افغان سیل اور مجاہدین سے رابطہ رکھنے کی ذمہ داری بریگیڈیئر یوسف کے سپرد تھی، دیرینہ تعلق کی وجہ سے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ باتیں مجھ سے ضرور شیئر کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ گل بدین حکمت یار کو شکوہ تھا کہ احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی کو امریکی اور سعودی امداد زیادہ دی جا رہی ہے۔ دونوں رہنماوں کے تعلقات میں کشیدگی کی بنیادی وجہ بھی فنڈز کی تقسیم تھی۔ بریگیڈیر یوسف نے یہ بھی بتایا کہ جب بھی مجاہدین رہنما ISI چیف سے ملاقات کے لیے آتے تھے ان کا پہلا مطالبہ فنڈز اور اسلحہ کی فراہمی ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ گلبدین حکمت یار کے وزیراعظم بننے کے بعد احمد شاہ مسعود نے اپنے آپ کو وادی پنجشیر تک محدود کرلیا تھا۔

دوحہ مذاکرات کے دوران سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور ملا عبد الغنی برادار کی ملاقاتتصویر: U.S. Department of State/AA/picture alliance

ماضی کے افغان جنگجو رہنما نے امریکہ کی مدد سے روس کو شکست دینے میں تو کامیاب رہے تھے مگر جب باہمی جھگڑوں کی وجہ سے افغانستان میں خانہ جنگی بڑھی تو مدرسہ کے طلبا ابھرنا شروع ہوئے۔ مدارس کے ان طلبا کا تعارف طالبان کے نام سے ہوا۔ سابق وزیر داخلہ نصراللہ بابر بہت سارے رازوں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے حالانکہ ملا عمر کا نام میں نے پہلی مرتبہ کراچی کے اسٹیٹ گیسٹ ہاوس میں ہونے والی ملاقات کے دوران جنرل نصیر اللہ بابر کے منہ سے ہی سنا تھا۔

طالبان حکومت کا قیام اور بھارت کو درپیش چیلنجز

طالبان آئے اور افغانستان پر چھا گئے مگر جس طرح انہوں نے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو پھانسی دی اور پھر خواتین کو بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے باعث دنیا سے طالبان کا تعارف انتہائی ظالم اور جابر حکمران کے طور پر ہوا۔ پھر رہی سہی کسر یورپ اور امریکہ میں دوران جنگ آباد ہونے والوں اور انکی وہیں پیدا ہونے والی اولادوں نے طلبان کی مخالفت کرکے پوری کردی جبکہ برقعے سمیت طالبان کے دور حکومت میں رائج بہت سے رسم و رواج پہلے سے افغان ثقافت کا حصہ تھے اور اب بھی ہیں، لیکن طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان باقی دنیا سے کٹا رہا۔

ملا عبد الغنی برادر

2006 میں کراچی حساس ادارے کے اہلکاروں  نے ایک شخص کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کیا۔ سی آئی اے سینٹر صدر میں نیوز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ پولیس افسران نے بتایا کہ انہوں نے ایک اہم طالبان لیڈر کو گرفتار کرکے کراچی کو بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ تھوڑی دیر میں ایک سپاہی درمیانے قد کے دبلے پتلے باریش شخص کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا۔ اس شخص کے پیروں میں ٹوٹی ہوئی چپل تھی، صرف پشتو اور دری زبان بول سکتا تھا۔ اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ اسے کئی دن کی تفتیش کے بعد پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔ پولیس افسران نے اس شخص کا تعارف ملا عبدالغنی برادر کے نام سے کروایا۔ دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے تمام الزامات ملا برادر پر لگائے جاچکے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جن اداروں نے گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کیا تھا وہ ہی ملا عبدالغنی برادر کو اسلام آباد لے گئے۔ ملا برادر کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب قطر میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کے آغاز سے قبل ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

افغانستان کے حالات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، خورشید قصوری

تقریبا 10 سال پاکستان میں قید رہنے کے بعد ملا عبد الغنی برادر کو رہا کرکے قطر پہنچا دیا گیا، جہاں انہوں نے طالبان کی طرف سے قائم سیاسی مرکز کی کمان سنبھال لی۔ پھر وہ تاریخی منظر بھی دیکھا جب دوحہ مذاکرات کو قطر میں آخری شکل دینے کے بعد دستخط کی تقریب ہوئی تو اسی چھوٹے قد والے ملا غنی برادر نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ ملاقات اور امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے ساتھ امریکی افواج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی۔

ملا عبد الغنی برادر قطری دارالحکومت میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل گفتگو کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed

"طالبان کا سیاسی ارتقا"

مگر 15 اگست 2021 کو کابل فتح کرنے والے طالبان پہلے سے مختلف ہیں۔ 20 سالہ جنگ کے بعد طالبان نے بھی سیاسی ارتقا کی بہت ساری منازل طے کی ہیں۔ اس بار طالبان نا صرف اپنا تاثر دنیا پر بہتر کرنا چاہتے ہیں بلکہ انکی سوچ ماضی کے مقابلے میں مختلف اور پالیسیاں نرم ہیں۔ ملکی استحکام، تمام گروپس کو ساتھ لے کر چلنا، خواتین کو کام کرنے کی اجازت اور سب سے بڑھ کر ایسا ترجمان مقرر کیا ہے جو انتہائی خوش اسلوبی سے تمام تر موقف دنیا کو پیش کررہا ہے۔ طالبان کے رویے میں نمایاں تبدیلیاں اشارہ کررہی ہیں کہ اس بار یہ رہنے اور دنیا کےساتھ قدم ملا کر چلنے کے ارادے سے آئے ہیں۔

آخری بات پاکستان پر مغربی ممالک کی طرف سے تنقید اور الزامات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان کے تمام اہم رہنماوں کے خاندان کوئٹہ اور پشاور میں مقیم ہیں، جس کوئٹہ شوری کی باتیں سنا کرتے تھے اس کے اہم کردار اب کابل میں نظر آرہے ہیں۔

میں خود کو افغان امور کا ماہر تو نہیں سمجھتا مگر گزشتہ 30 سال سے افغانستان میں جس بے یقینی، خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کو دیکھا ہے، صرف یہی کہوں گا کہ امریکہ، چین، روس اور پاکستان ملا عمر کے مقابلے میں قدرے لچکدار نظر آنے والے طالبان سے قطع تعلق کی بجائے انہیں انگیج رکھیں  تو یہ افغانستان کے ساتھ دنیا کے لیے بھی بہتر ہوگا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں