افغان طالبان کا مذاکراتی وفد پاکستان میں، ’بات چیت مری میں‘
مقبول ملک ڈی پی اے
17 جنوری 2018
پاکستانی انٹیلیجنس ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے نمائندوں کا ایک تین رکنی وفد اس وقت پاکستان کے دورے پر ہے۔ اس دورے کا مقصد افغانستان میں طالبان کی کابل حکومت کے ساتھ امن بات چیت کی بحالی سے متعلق تبادلہ خیال کرنا ہے۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ سترہ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق افغان طالبان کے یہ مذاکراتی مندوبین پاکستان میں ملاقاتوں اور تبادلہ خیال کے ذریعے کابل حکومت اور طالبان کے مابین امن بات چیت کی بحالی کے امکانات کا جائزہ لیں گے۔
پاکستان کے ایک خفیہ ادارے کے ایک اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی پی اے کو بتایا کہ اس وفد کی قیادت خلیجی عرب ریاست قطر میں طالبان کے رابطہ دفتر کے سربراہ شہاب الدین دلاور کر رہے ہیں۔ اس اہلکار نے کہا کہ یہ وفد اسی ہفتے پاکستان پہنچا تھا تاکہ پاکستانی سکیورٹی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کر سکے۔
پاکستانی انٹیلیجنس کے اسی اہلکار نے بتایا کہ اس وفد کی ملاقاتیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب گرمائی تعطیلاتی مقام مری میں ہو رہی ہیں۔ مری وہی پاکستانی پہاڑی شہر ہے، جہاں جولائی 2015ء میں بھی افغان طالبان اور پاکستانی اور افغان حکومتی اہلکاروں کے مابین مذاکرات کا پہلا دور ہوا تھا۔
تین سال پہلے تب یہ سہ فر یقی بات چیت دوسرے مرحلے میں داخل ہونے سے قبل اپنے اولین راؤنڈ میں ہی اس لیے ناکام ہو گئی تھی کہ افغان طالبان کے نمائندے ان مذاکرات سے نکل گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ بنی تھی کہ طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کے اس مکالمت سے کافی پہلے ہو چکے انتقال کی خبر میڈیا میں پھیل گئی تھی۔ اس وقت تک طالبان نے خود ملا عمر کی موت کا اعلان ہی نہیں کیا تھا۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ افغان طالبان کے وفد کا یہ دورہٴ پاکستان اور ان کی مری میں ملاقاتیں ایک ایسے وقت پر عمل میں آ رہے ہیں، جب پاکستانی حکام اور اعلیٰ امریکی سفارت کار بھی آپس میں ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ ان پاکستانی امریکی ملاقاتوں میں بنیادی موضوع یہ تھا کہ افغان طالبان کو پاکستان میں محفوظ ٹھکانے میسر ہیں اور وہ پاک افغان سرحد کے قریبی علاقوں سے افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
اس سے قبل رواں ماہ کے اوائل میں امریکا نے پاکستان کے لیے قریب دو بلین ڈالر کی سکیورٹی امداد معطل کرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو افغان عسکریت پسند گروپوں کی مبینہ حمایت پر ’سزا‘ دی جا سکے۔
افغان طالبان کے مذاکراتی مندوبین کے اس تین رکنی وفد کے دورہٴ پاکستان کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ طالبان کے ایسے ہی ایک وفد نے مبینہ طور پر گزشتہ ہفتے ترکی کا دورہ بھی کیا تھا اور وہاں بھی افغانستان میں قیام امن کے عمل کے بارے میں ہی بات چیت کی گئی تھی۔
سانحہء اے پی ایس پشاور: یاد آج بھی تازہ
سولہ دسمبر سن دو ہزار چودہ کا سورج غروب ہوا تو پاکستان بھر کو سوگوار اور آبدیدہ چھوڑ گیا۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان کے ہاتھوں بچوں کے قتلِ عام کی گزشتہ تین سالوں میں مذمت عالمی سطح پر کی گئی۔
تصویر: DW/F. Khan
اسکول کی دیوار، بربریت کی گواہ
طالبان کی بندوقوں سے نکلی گولیوں نے اسکول کی دیواروں کو بھی چھلنی کر دیا۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
امدادی کارروائیاں
اسکول میں حملے کی اطلاع ملتے ہی پاکستان کی فوج نے بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
اپنے پیاروں کی میت اٹھانا مشکل
ایک شخص امدادی کارکن کے ساتھ بیٹے کا تابوت اٹھاتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
آنسو بھی حوصلہ بھی
آرمی پبلک اسکول حملے میں زخمی ہونے والے ایک طالبِ علم کے رشتہ دار ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
خود محفوظ لیکن ساتھیوں کا غم
ایک طالب علم جسے حفاظت سے باہر نکال لیا گیا تھا، اندر رہ جانے والے اپنے ساتھیوں کے لیے اشکبار تھا۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
علی محمد خان اب نہیں آئے گا
سانحہ پشاور میں طالبان کی گولیوں کا نشانہ بننے والے علی خان کی والدہ کو قرار کیسے آئے۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
سیاہ پٹی اور سرخ گلاب
پاکستان بھر میں بچوں نے گزشتہ برس بازوؤں پر سیاہ پٹی اور ہاتھ میں سرخ گلاب تھام کر طالبان کی بربریت کا شکار ہونے والے اپنے ساتھیوں کی یاد منائی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
دنیا بھر میں احتجاج
نیپال کے دارالحکومت کھٹمندو کی ایک خاتون نے اپنے انداز میں پشاور حملے پر احتجاج کیا۔
تصویر: Reuters/Navesh Chitrakar
بھارتی بچے بھی سوگ میں شامل
بھارت کے شہر متھرا میں اسکول کے بچوں نے سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لیے دعا کی۔
تصویر: Reuters/K. K. Arora
روشن قندیلیں
پاکستان میں سول سوسائٹی اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد آج کے دن ہر سال سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں شمیں روشن کرتے ہیں۔