طالبان کا کابل پر قبضہ: ’پاکستانی طالبان کے حوصلے بلند‘
عبدالستار، اسلام آباد
16 اگست 2021
پاکستانی سکیورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے سے پاکستان کی سلامتی کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں جبکہ حقوق نسواں کے کارکن طالبان کی فتح کو پاکستان اور افغانستان کی خواتین کے لیے تباہ کن قرار دے رہے ہیں۔
اشتہار
واضح رہے کہ افغان طالبان نے صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے کے بعد صدارتی محل پر قبضہ کر لیا ہے اور اب تقریباﹰ پورا افغانستان عسکریت پسند گروہ طالبان یا 'امارات اسلامیہ‘ کے قبضے میں ہے۔
کئی ناقدین کے مطابق افغان طالبان کا خواتین کے حقوق کے حوالے سے ماضی میں رویہ انتہائی نامناسب رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں جب افغان طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو خواتین پر بہت ساری پابندیاں لگائی گئیں۔ لڑکیوں کے اسکولوں کو بند کیا گیا۔ خواتین کے کام کرنے پر پابندی لگائی گئی اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی قدغنیں لگائی گئیں۔
پاکستان کے لیے سکیورٹی کے مسائل
افغان طالبان کے برسراقتدار آنے سے پاکستان میں سلامتی کے بھی کئی مسائل پیدا ہوئے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ تنظیمیں پاکستان میں دہشت گردی کر کے افغانستان میں پناہ لے لیتی تھیں۔ پاکستان اپنے تمام تر اثر و رسوخ کے باوجود اُن فرقہ وارانہ دہشت گردوں کو اپنی تحویل میں نہیں لے سکا جنہوں نے افغانستان میں پناہ لی تھی اور جب کبھی بھی اسلام آباد نے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا، تو طالبان نے اس مطالبے سے صرف نظر کیا۔
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
10 تصاویر1 | 10
سکیورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے ایک بار پھر پاکستان کو سکیورٹی کے حوالے سے خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ اس طرح کی اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو رہا کردیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''افغان حکام نے گزشتہ بارہ سالوں میں ٹی ٹی پی کے کئی دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہوا تھا جو ان کی جیلوں میں تھے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے جہاں دوسرے قیدی رہا ہوئے ہیں وہاں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھی رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ وہیں رہیں گے یا پاکستان میں آکر ہمارے لیے مسائل کھڑے کریں گے اورسکیورٹی فورسز پر حملے کریں گے۔‘‘
’ پاکستانی طالبان کے حوصلے بڑھ گئے‘
امان میمن کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ پاکستانی قبائلی علاقوں کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول، ''یہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان نظریاتی طور پر بھائی ہیں۔ اگر پاکستان نے افغان طالبان کے ذریعے ان کو گرفتار نہیں کیا تو پاکستان کے لیے بہت بڑا نیشنل سکیورٹی مسئلہ کھڑا ہو جائے گا، جس کو حل کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔‘‘
کابل کے محاصرے پر شہر میں خوف پھیل گیا
01:26
امان میمن کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ نے ماضی میں ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ ''لیکن آزاد ریاست کی بات کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستانی طالبان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور افغان طالبان کی فتوحات دیکھ کر ان کے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہ پاکستانی ریاست کو نہ صرف چیلنج کرسکتے ہیں بلکہ اس کو شکست دے کر ایک آزاد ریاست بھی قائم کر سکتے ہیں۔ اگر اس ریاست کے لیے مسلح جدوجہد کی گئی تو یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا درد سر بنے گی۔‘‘
اشتہار
ٹی ٹی پی کے لیے محفوظ پناہ گاہیں
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کو وہاں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہو جائیں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں بھی ٹی ٹی پی کے لوگ حملہ کر کے افغانستان کے کچھ علاقوں میں چھپ جاتے تھے لیکن اُس وقت وہاں پر کیوں کہ افغان حکومت اور نیٹو کی فوجیں ہوا کرتی تھی، اس لیے بہت سارے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد گرفتار بھی ہوئے۔ لیکن اب ایسی پریشان کن خبریں آرہی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو، جس میں مولوی فقیر بھی شامل ہیں، افغان طالبان نے رہا کردیا ہے۔ یہ خبر پاکستان کی سلامتی کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔‘‘
ایوب ملک کے بقول ٹی ٹی پی اگر پاکستان میں اب کوئی عسکریت پسندی کی تحریک شروع کرتی ہے، تو ان کے لیے یہ بڑا آسان ہو گا کہ یہاں سے حملے کر کے وہ اپنے نظریاتی بھائیوں کے پاس افغانستان میں پناہ لے لیں اور پاکستان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔
لوٹ مار سے بچانے کے لیے طالبان کابل میں
افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر تاجکستان چلے گئے جس کے بعد طالبان افغانستان دارالحکومت کابل میں داخل ہو گئے۔ کابل اور افغانستان میں ہونے والی تازہ پیشرفت جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: AFP/Getty Images
طالبان کابل کے صدارتی محل میں داخل
طالبان کے کابل میں موجود دو سینیئر کمانڈرز کے مطابق طالبان افغان صدارتی محل میں داخل ہو گئے ہیں اور اس کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ تاہم افغان حکومت کی طرف سے ابھی اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔
تصویر: REUTERS
اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے کونسل قائم
افغانستان میں اقتدار کی پرامن منتقلی کو ممکن بنانے کے لیے افغان رہنماؤں کی ایک کونسل قائم کر دی گئی ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ اس کونسل کی سربراہی کرنے والوں میں ان کے ساتھ اعلی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے چیف گلبدبین حکمت یار شامل ہیں۔
تصویر: Mariam Zuhaib/AP Photo/picture alliance
کابل کے ایئر پورٹ پر آتشزدگی کی اطلاعات
افغان دارالحکومت میں قائم امریکی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر خبردار کیا گیا ہے کہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر آتشزدگی کی طلاعات ہیں، اس لیے امریکی شہری محفوظ مقامات پر ہی رہیں۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی فورسز نے کابل میں عبوری سفیر کو ہوائی اڈے پہنچا دیا ہے جبکہ امریکی سفارت خانے سے امریکی پرچم اتار دیا گیا ہے۔
تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance
لوٹ مار کے پیش نظر طالبان جنگجو کابل میں داخل
طالبان کے ذرائع کے مطابق کابل میں لوٹ مار کے خطرے کے پیش نظر جنگجوؤں کو دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق پولیس کی طرف سے اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
تصویر: Hamed Sarfarazi/AP/picture alliance
اشرف غنی تاجکستان چلے گئے
طالبان کی طرف سے کابل کے محاصرے کے چند گھنٹوں بعد افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر تاجکستان چلے گئے۔ قبل ازیں صدر غنی کے دفتر نے البتہ کہا کہ صدر کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ وہ کہاں ہیں۔
تصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance
کابل میں جرمن سفارت خانہ بند
جرمنی نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیٹو کے مطابق وہ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور کابل میں سفارتی موجودگی قائم رکھنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: Can Merey/dpa/picture-alliance
طالبان قیادت کا اپنے جنگجوؤں کے نام پیغام
دوحہ میں ایک طالبان رہنما نے بتایا کہ طالبان قیادت نے دارالحکومت میں داخل ہونے والے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ تشدد سے گریز کریں، جو کسی دوسری جگہ جانے کے لیے محفوظ راستہ طلب کرے، اسے جانے دیا جائے اور خواتین کو محفوظ مقامات تک جانے کی اجازت دی جائے۔
تصویر: Hamed Sarfarazi/AP Photo/picture alliance
لوگوں کی زندگیاں اور املاک محفوظ ہیں، طالبان ترجمان
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم لوگوں کو یقین دلاتے ہیں، خاص طور پر کابل میں کہ ان کی املاک اور زندگیاں محفوظ ہیں۔‘‘ سہیل شاہین کے مطابق خواتین اپنی تعلیم اور دیگر سرگرمیاں بدستور جاری رکھ سکیں گی، تاہم اسکارف کی پابندی کرنا ہو گی۔
تصویر: Paula Bronstein/Getty Images
سفارتی عملے کا انخلا
افغان دارالحکومت کابل میں امریکی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں ہیلی کاپٹر لینڈ کرتے دیکھے گئے جبکہ عملہ خصوصی گاڑیوں کے ذریعے سفارت خانے سے نکلا۔ سفارت خانے سے دھواں اٹھتا بھی دیکھا گیا۔ اس سے پہلے امریکی حکام نے کہا تھا کہ حساس مواد جلانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance
بگرام ایئربیس پر طالبان کا قبضہ
افغان فورسز نے مشہور زمانہ بگرام ایئربیس کا کنٹرول طالبان کے حوالے کر دیا ہے۔ بگرام کے ضلعی سربراہ درویش رؤفی کے مطابق وہاں تقریباﹰ پانچ ہزار قیدی موجود ہیں۔ امریکا کے اس سابق ایئربیس کی جیل میں زیادہ تر طالبان اور داعش سے تعلق رکھنے والے جنگجو قید تھے۔
تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance
طورخم بارڈ کا کنٹرول طالبان کے پاس
کابل میں داخل ہونے سے قبل طالبان نے طورخم بارڈر کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق اس بارڈر پر تمام آمد و رفت معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Reuters
11 تصاویر1 | 11
ایوب ملک کے خیال میں پاکستان کی سکیورٹی کا یہ تقاضا ہے کہ پاکستان فوری طور پر افغان طالبان سے مطالبہ کریں کہ ٹی ٹی پی کے جتنے بھی دہشت گردوں کو رہا کیا گیا ہے ان کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ ''ان کو پاکستان لا کر ان پر مقدمات دائر کیے جائیں۔ اگر ان کو افغانستان میں ہی رہنے دیا گیا، تو یہ پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن کر ابھریں گے۔‘‘
حقوق نسواں کی کارکنان کو تشویش
افغان طالبان کی فتح پر پاکستان میں حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی خواتین بھی تشویش کا شکار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ طالبان کی فتح سے نہ صرف افغانستان میں خواتین کے لیے مشکلات بڑھیں گی بلکہ پاکستان میں بھی خواتین کے لیے اسپیس سکڑے گا۔ اردو اور سندھی ڈراموں کی معروف ڈرامہ نگار، مصنفہ اور خواتین کے حقوق کی علمبردار نورالہدیٰ شاہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان نے جس طرح خواتین کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھا، اس کی وجہ سے کوئی بھی اب ان کی یقین دہانیوں پر اعتبار نہیں کرے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''افغان طالبان کے آنے سے پاکستان میں بھی عورت دشمن سوچ کو فروغ ملے گا۔ طالبان صرف تحریک نہیں بلکہ ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے اور افغان طالبان کی فتح سے اس مائنڈ سیٹ کے حوصلے بڑھیں گے، جس کی وجہ سے خواتین دشمن رویوں میں تیزی آئے گی۔‘‘
طالبان اب بدل گئے ہیں، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ
08:11
This browser does not support the video element.
نورالہدیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگائی۔ ان کو کام کرنے سے روکا اور انہیں سنگسار بھی کیا۔ ان کے بقول، ''یہ تمام مظالم کیسے بھلا دیے جائیں۔ اب طالبان یہ کہہ رہے ہیں کہ خواتین کو تعلیم کی اجازت ہوگی لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت ہوگی لیکن ماضی کے ظلم و ستم کے پیش نظر کوئی ان کی باتوں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے ایسی سوچ کو فروغ دیا جس کے مطابق عورت کم تر ہے۔ اس پر تشدد جائز ہے۔ اس پر ظلم کرنا مرد کا حق ہے۔ ایسی سوچ نہ صرف افغانستان کی خواتین کے لیے زہر قاتل ہے بلکہ پاکستانی خواتین کے لیے بھی خطرناک ہے۔‘‘
نورالہدیٰ شاہ نے کہا، ''اب اس سوچ کا چرچا نہ صرف پاکستان کی ریاست کرے گی بلکہ پاکستانی طالبان بھی اب اس سوچ کو مذید پروان چڑھائیں گے۔‘‘