افغان طالبان کی سکیورٹی فورسز کے ’دروازوں پر دستک‘
7 اکتوبر 2018
افغان طالبان نے سکیورٹی فورسز کے خلاف ایک بڑا آپریشن کرتے ہوئے کئی ہائی وے پُل تباہ کر دیے ہیں جبکہ متعدد حملوں میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد اٹھائیس تک پہنچ چکی ہے۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹوں کے مطابق صرف اتوار کے روز افغان طالبان نے ایک بڑا عسکری آپریشن کرتے ہوئے متعدد پُل تباہ کر دیے ہیں اور تین صوبوں کا دارالحکومت کابل سے برّی رابطہ ختم کر دیا ہے۔ افغان وزارت داخلہ کے نائب ترجمان نصرت رحیمی نے کہا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں نے وردک صوبے میں ڈسٹرکٹ سید آباد کے ہیڈکوارٹرز پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، جسے ناکام بنا دیا گیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس لڑائی میں کم از کم 17 پولیس اہلکار ہلاک اور دیگر سات زخمی ہوئے ہیں۔
صوبائی پولیس کے ترجمان حکمت درانی کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں نے ڈسٹرکٹ پولیس کے ہیڈکوارٹرز کے متعدد حصوں کو آگ لگا دی ہے اور اس علاقے کی متعدد چیک پوسٹوں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ طالبان سکیورٹی فورسز کا اسلحہ بھی اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ درانی نے سید آباد کی لڑائی میں بیس طالبان کے ہلاک ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ وہ ضلعی ہیڈکوارٹر پر قابض ہو چکے ہیں لیکن مقامی حکام نے اس کی تردید کی ہے۔ رحیمی کا کہنا تھا کہ علاقے میں مزید کمک بھیج دی گئی تھی اور اب علاقہ ان کے کنٹرول میں ہے۔
مختلف بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں کے مطابق طالبان نے متعدد پُل تباہ کرتے ہوئے غزنی، زابل اور قندہار کا دارالحکومت سے بری رابطہ ختم کر دیا ہے۔ اس لڑائی کی وجہ سے افغانستان کے چار صوبوں وردک، لوگر، غزنی اور پکتیا کو بجلی کی سپلائی بھی بند ہو گئی ہے۔
اسی طرح صوبہ فریاب میں پشتون کوٹ پر حملہ کرتے ہوئے طالبان نے کم از کم 11 سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے۔ صوبائی کونسل کے رکن محمد نادر سعیدی کا کہنا ہے کہ طالبان کے حملوں کی وجہ سے اس علاقے سے عام شہری نقل مکانی کرتے ہوئے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق حالیہ کچھ عرصے میں طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ تازہ اور بڑے پیمانے پر حملے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب دو ہفتوں بعد افغانستان میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اتوار کے روز افغانستان میں موجود اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ رواں برس نو ماہ کے دوران خودکش حملوں کے نتیجے میں ہونے والی شہریوں کی ہلاکتوں میں گزشتہ برس کے مقابلے چھیالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.