1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمافغانستان

افغان طالبان کی طرف سے مجرم کو سرعام موت کی سزا

13 نومبر 2024

طالبان حکام نے مشرقی افغانستان میں ایک مجرم کو اسپورٹس اسٹیڈیم میں گولیاں مارتے ہوئے سرعام موت کی سزا دے دی۔ طالبان کی تین سال قبل اقتدار میں واپسی کے بعد یہ چھٹی سرعام سزائے موت تھی۔

طالبان حکام نے مشرقی افغانستان میں ایک مجرم کو اسپورٹس اسٹیڈیم میں گولیاں مارتے ہوئے سرعام موت کی سزا دے دی
طالبان حکام نے مشرقی افغانستان میں ایک مجرم کو اسپورٹس اسٹیڈیم میں گولیاں مارتے ہوئے سرعام موت کی سزا دے دیتصویر: AFP via Getty Images

جائے وقوعہ پر موجود نیوز ایجنسی اے ایف پی کے صحافی کے مطابق بدھ کے روز صوبہ پکتیا کے صدر مقام گردیز میں ہزاروں تماشائیوں کے سامنے متاثرہ خاندان کے ایک فرد نے مجرم کے سینے میں تین گولیاں ماریں۔

گزشتہ شام گورنر کے دفتر نے سوشل میڈیا پر عہدیداروں اور مقامی رہائشیوں سے ''اس ایونٹ میں شرکت‘‘ کی اپیل کی تھی۔

قبل ازیں افغانستان کی سپریم کورٹ کے ایک بیان میں کہا گیا تھا، ''ایک قاتل کو انتقامی کارروائی کی سزا سنائی گئی ہے۔‘‘ اس بیان میں مجرم کا نام محمد ایاز اسد بتایا گیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ پھانسی کے حکم نامے پر طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے دستخط کیے ہیں۔

جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مجرم ایک اور شخص حبیب اللہ سیف کو قتل کرنے کے الزام میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی سے زیر حراست تھا، جبکہ  تین فوجی عدالتوں کے ذریعے اس کیس کی ''بہت درست انداز میں اور بار بار جانچ‘‘ کی گئی۔

طالبان حکومت نے ممبئی میں اپنا 'قائم مقام قونصل' مقرر کر دیا

بیان میں مزید کہا گیا کہ مقتول کے خاندان کو یہ سزائے موت رکوانے اور قاتل کو معاف کرنے کا موقع دیا گیا لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

سزائے موت کے وقت ہجوم میں وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سمیت کئی اعلیٰ سطحی افغان اہلکار بھی موجود تھے۔ سراج الدین حقانی افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر فعال حقانی نیٹ ورک کے سربراہ بھی ہیں۔ امریکہ نے اس گروہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے اور اسے افغانستان میں سب سے زیادہ پرتشدد عسکریت پسند گروہوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

سن 1996 سے سن 2001 تک طالبان کے پہلے دور حکومت میں سرعام موت کی سزائیں عام تھیں لیکن اگست 2021 میں ان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے ابھی تک صرف چند افراد کو ہی سزائے موت دی گئی ہے۔

سن 2022 میں طالبان کے سربراہ اخوندزادہ نے ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ طالبان حکومت کی اسلامی قانون کی تشریح کے تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر لاگو کریںتصویر: picture-alliance/dpa/Afghan Islamic Press via AP

سن 2022 میں طالبان کے سربراہ اخوندزادہ نے ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ طالبان حکومت کی اسلامی قانون کی تشریح کے تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر لاگو کریں، جس میں ''آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘ کی سزا بھی شامل ہے۔ اسے ''قصاص‘‘ کہا جاتا ہے اور اس میں قتل کے جرم کے بدلے میں سزائے موت کی اجازت دی جاتی ہے۔

آج بدھ کو اسٹیڈیم میں موجود سید اللہ نامی ایک عینی شاہد کا کہنا تھا، ''قصاص خدا کا حکم ہے، ہم مسلمان ہیں، اس لیے ہمیں اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

سید اللہ کا مزید کہنا تھا، ''پہلے اس پر عمل نہیں کیا جاتا تھا، چیزیں ٹھیک نہیں تھیں... اب شکر ہے، یہ ایک اسلامی نظام ہے۔‘‘

طالبان سے قبل مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت کی طرف سے شاذ و نادر ہی موت کی سزا دی جاتی تھی۔ طالبان کی جانب رواں برس فروری میں ایک ہفتے کے اندر تین سرعام موت کی سزائیں دی گئی تھیں۔

طالبان کے دور میں جسمانی سزائیں، بنیادی طور پر کوڑے مارنا عام ہے، جبکہ یہ سزا زیادہ تر چوری، زنا اور شراب نوشی جیسے جرائم کے لیے دی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیمیں طالبان حکومت کی طرف سے جسمانی سزاؤں اور سزائے موت کے استعمال کی شدید مذمت کرتی ہیں۔

بین الاقوامی تنقید کے باوجود طالبان حکومت جسمانی سزاؤں کی اس شکل کا دفاع کرتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ ملک کے قانون کے مطابق ہیں جبکہ یہ  عوام کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔

ایمنسٹی کے مطابق سن 2022 میں چین، ایران، سعودی عرب، مصر اور امریکہ سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک میں شامل تھے۔

ا ا / ش ر (اے ایف پی، ڈی پی اے)

کیا موت کی سزا کو ختم کر دیا جانا چاہیے؟

01:41

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں