افغان طالبان کی لڑائی کا رخ اب سیدھا پولیس اور فوج کی طرف
مقبول ملک اے ایف پی
19 اکتوبر 2017
افغانستان کی موجودہ جنگ کو شروع ہوئے سولہ برس ہو چکے ہیں اور طالبان باغیوں کی صفوں میں ابھی تک تھکن کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ان عسکریت پسندوں نے تو اب اپنی لڑائی کا رخ سیدھا افغان پولیس اور فوج کی طرف کر دیا ہے۔
اشتہار
ہندو کش کی اس ریاست کے دارالحکومت کابل سے جمعرات انیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک مفصل تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کابل حکومت کے دستوں کے خلاف ہر سال موسم بہار میں اپنی عسکری کارروائیاں تیز تر کر دیتے ہیں۔
اس سال اپریل کے اواخر میں طالبان نے اپنے مسلح حملوں میں اضافے کے ساتھ جب ایک بار پھر اسی عسکری سوچ کا عملی مظاہرہ کیا، تو فرق یہ پڑا کہ اب جب کہ موسم خزاں بھی اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، نہ تو یہ حملےکم ہوئے اور نہ ہی ان کی ہلاکت خیزی۔
گزشتہ چند ماہ سے طالبان افغان فوج اور پولیس کی چوکیوں اور سکیورٹی دستوں کے تربیتی مراکز پر اپنے بڑے حملوں میں کافی تیزی لا چکے ہیں۔ اس دوران گزشتہ صرف ایک ہفتے کے دوران ہی مختلف صوبوں میں حکومتی دستوں پر جو بڑے اور زیادہ تر خود کش بم حملے کیے گئے، ان میں سوا سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں بنتی ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ امریکا پر گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے خلاف امریکا کی قیادت میں جو فوجی مداخلت کی گئی تھی، اس دوران کابل میں طالبان کی ملکی حکومت کو ختم ہونے میں تو چند ہفتے ہی لگے تھے۔ لیکن اس وقت سے ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں واقع اس ریاست میں جو جنگ جاری ہے، اسے اب 16 برس ہو چکے ہیں۔ یہی جنگ امریکا کی تاریخ کی طویل ترین غیر ملکی جنگ بھی بن چکی ہے۔
افغانستان کی موجودہ جنگ کی پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ دو ہزار ایک کے اواخر سے اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھنے والے طالبان کی صفوں میں ابھی تک تھکن کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اس کے برعکس طالبان مزاحمت کاروں نے تو پہلے ہی سے مسائل اور مشکلات کے شکار سرکاری دستوں کے خلاف اپنی جنگی کارروائیان اتنی تیز کر دی ہیں کہ عشروں کی خانہ جنگی سے تباہ حال اس ملک میں عدم تحفظ کا احساس مسلسل شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
دسمبر 2014ء میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی دستوں نے افغانستان میں اپنی باقاعدہ جنگی کارروائیاں ختم کر دی تھیں۔ اس کے بعد سے اس ملک میں طالبان کی عسکری طاقت اور ان کے حملوں کی ہلاکت خیزی دونوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
دوسری طرف فوج ہو یا پولیس، کابل حکومت کی سکیورٹی فورسز کے لیے ان کی اپنی سلامتی کے مسائل میں اضافہ اس لیے بھی ہوتا جا رہا ہے کہ یہ دستے اپنے ساتھیوں کی مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہلاکتوں سے بد دل بھی ہوتے ہیں، ان میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے بجائے اپنی ملازمتوں سے بھاگ جانے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے اور کرپشن کے ساتھ ساتھ تشویش کی ایک بات یہ بھی ہے کہ ان فورسز کے کئی ارکان ایسے بھی ہیں، جو کاغذ پر تو ملازمتیں کرتے ہیں مگر جن کا جسمانی طور پر کوئی وجود ہوتا ہی نہیں۔
’پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ کابل بہت مثبت قدم تھا‘ معید یوسف
03:15
افغانستان کی تعمیر نو اور فوجی امداد سے متعلق امریکی سرگرمیوں کے نگران احتسابی ادارے (SIGAR) کے مطابق 2016ء میں اس ملک میں طالبان عسکریت پسندوں یا دیگر شدت پسند تنظیموں کے حملوں میں مارے جانے والے سرکاری فوجیوں یا پولیس اہلکاورں کی تعداد 6,800 رہی تھی، جو 2015ء کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ تھی۔ 2017ء ابھی ختم نہیں ہوا لیکن اسی امریکی ادارے کو خدشہ ہے کہ اس سال افغان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد شاید گزشتہ برس سے بھی زیادہ رہے گی۔ اس خدشے کا سبب یہ ہے کہ اس سال موسم بہار میں طالبان کے حملوں میں سکیورٹی دستوں کو پہنچنے والا جانی نقصان ’دہلا دینے والی حد تک زیادہ‘ تھا۔ پھر سال رواں کی تیسری سہ ماہی اور چوتھی سہ ماہی میں اب تک ہر روز طالبان کے بڑے حملوں کی جو رپورٹیں ملتی رہی ہیں، ان میں بھی ہلاکتوں کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ بہت سے واقعات میں درجنوں یا بیسیوں میں ہوتی ہے۔
افغانستان کی اسی موجودہ صورت حال کے حوالے سے کئی سکیورٹی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ افغان جنگ عنقریب ختم ہو سکے گی، فی الحال یہ کہنا وہاں کے زمینی حقائق کے عین منافی ہو گا۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔