طالبان عسکریت پسندوں نے پیر اور منگل 22 مئی کی درمیانی شب افغانستان کے مشرقی صوبہ غزنی کے مختلف اضلاع میں حملے کیے ۔ غزنی کی صوبائی کونسل کے رُکن حسن رضا یوسفی کے مطابق ضلع دہ یَک میں سات پولیس اہلکار مارے گئے جن میں ضلعی پولیس کے سربراہ اور ریزرو پولیس کمانڈر بھی شامل ہیں۔ سات دیگر پولیس اہلکار ضلع جغتو میں طالبان کے حملے کا نشانہ بنے۔ یوسفی کے مطابق دیہاک، جَغتو، اجرستان اور قرہ باغ کے اضلاع میں حملوں کا آغاز پیر کی شب ہوا جو آج منگل کی صبح تک جاری تھے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق غزنی کی صوبائی کونسل کی سربراہ لطیفہ اکبری نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے ضلع دہ یَک اور جغتو میں مختلف چیک پوسٹوں پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے سکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی تعداد 20 سے زائد بتائی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ جغتو کے ضلعی ہیڈکوارٹرز پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے جبکہ دہ یک کی کئی ایک پولیس چیک پوسٹیں بھی اب طالبان کے قبضے میں ہیں۔
طالبان کی طرف سے رواں برس موسم بہار کے آغاز کے ساتھ ہی شدید حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز طالبان نے دارالحکومت کابل کے شہریوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ فوجی تنصیبات اور مراکز سے دور رہیں کیونکہ طالبان کابل میں نئے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaیہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpaستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelovاس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP ا ب ا / ع ا (ایسوسی ایٹڈ پریس)