افغان دارالحکومت کابل کے مغربی حصے میں واقع فوجی بیس پر عسکریت پسندوں نے علی الصبح حملہ کیا۔ اس حملے کی ابتدا خودکش حملے سے کی گئی اور پھر اِن عسکریت پسندوں کی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ شروع ہو گئی۔
اشتہار
افغان دارالحکومت میں پیر کے دن رونما ہونے والی ایک تازہ پرتشدد کارروائی کے نتیجے میں گیارہ فوجی مارے گئے ہیں۔ اس حملے میں دس دیگر فوجی زخمی بھی ہیں۔ حملہ آوروں کی تعداد نصف درجن کے قریب تھی۔ اس حملے میں کم از کم پانچ عسکریت مارے گئے۔ دو خودکش حملے میں اور دو کو فوج کی گولیاں لگی تھیں۔ ایک حملہ آور کو زندہ گرفتار کرنے کا بھی حکام نے دعویٰ کیا ہے۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری کے مطابق علی الصبح شروع ہونے والے حملے پر اب پوری طرح قابو پایا جا چکا ہے۔ ترجمان کے مطابق جنگجوؤں نے مغربی کابل میں جس فوجی بیس پر حملہ کیا، وہ افغان ملٹری اکیڈمی کے قریب واقع ہے۔ اس جھڑپ کے دوران حملہ آوروں نے ایک درجن کے قریب بم حملے بھی کیے۔
وزارت دفاع کے ترجمان نے اُن افواہوں کی سختی سے تردید کی ہے کہ جنگجوؤں کے حملے کی زد میں ملٹری اکیڈمی ہے۔ سیٹلائٹ پکچر کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اکیڈمی اور فوجی بیس قریب قریب واقع ہیں۔ وزیری کے مطابق حملے کے ختم ہونے کے بعد جنگجوؤں کے بچے ہوئے اسلحے کو قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ ان میں ایک خود کش جیکٹ، چار کلاشینیکوف بندوقیں، راکٹ لانچر اور گرینیڈز شامل ہیں۔
افغانستان کے مشرقی حصے کے صوبوں ننگر ہار اور کنڑ میں زور پکڑتی انتہا پسند جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ جہادی گروپ کی جانب سے ایک ای میل میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا بتایا گیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں عسکریت پسندوں کے حملے میں ایک بس کو ٹارگٹ کیا گیا تھا اور پندرہ کیڈٹ ہلاک ہو گئے تھے۔ پیر کا حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ابھی افغانستان ہفتہ ستائیس جنوری کے ایمبولینس حملے میں ایک سو ہونے والی ہلاکتوں کے سوگ میں ہے۔
کابل پھر لرز اٹھا
افغان دارالحکومت کابل میں ہوئے تازہ کار بم حملے کے نتیجے میں چار سو سے زائد افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا ہے کہ یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
یہ حملہ زنباق اسکوائر کے نزدیک ہوا، جہاں قریب ہی حکومتی دفاتر کے علاوہ افغان صدر کا دفتر بھی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
اس ٹرک بم حملے کے نتیجے میں کم از کم اسّی افراد ہلاک جبکہ ساڑھے تین سو زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
دھماکے کے بعد جائے حادثہ سے اٹھنے والے دھوئیں کے بادلوں نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
تصویر: Reuters/H. Sayedi
افغان طالبان نے کابل میں ہونے والے تازہ بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے اسے ایک ’بزدلانہ کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح حکومت کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے تصدیق کر دی ہے کہ کابل میں ہوئے اس حملے کی وجہ سے وہاں واقع جرمن سفارتخانہ بھی متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں عمارت کے باہر موجود افغان سکیورٹی گارڈ مارا گیا جبکہ عملے کے دیگر مقامی ارکان بھی زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
دھماکے کی شدت کو دیکھتے ہوئے ملکی وزارت صحت نے خدشہ ظاہر ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
اس دھماکے کی وجہ سے تیس گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں جبکہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
طبی ذرائع کے مطابق اس بم حملے میں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
فرانسیسی وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اس دھماکے کے باعث کابل میں فرانس کے سفارتخانے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
پاکستان کی طرف سے بھی اس خونریز کارروائی پر کابل حکومت کے ساتھ اظہار افسوس کیا گیا ہے۔