افغانستان کا ایک فوجی ہیلی کاپٹر تباہ ہونے کے نتیجے میں اس پر سوار تمام پچیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں صوبائی کونسل کے سربراہ، کونسل کی ایک خاتون رکن اور ایک ڈپٹی کور کمانڈر بھی شامل ہیں۔
اشتہار
افغان صوبے فراہ کے گورنر کے ترجمان ناصر مہری نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ آج صبح دو ہیلی کاپٹر ہمسایہ صوبے ہرات کی جانب روانہ تھے کہ اُن میں سے ایک گر کر تباہ ہو گیا۔ فوری طور پر یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ اس فوجی ہیلی کاپٹر کے تباہ ہونے کی وجوہات کیا تھیں۔ ترجمان کے مطابق ہیلی کاپٹر کو خراب موسم کا سامنا تھا لیکن طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ ہیلی کاپٹر کی تباہی ان کی ایک کارروائی کے نتیجے میں ہوئی ہے۔
تباہ ہونے والے ہیلی کاپٹر پر کل تئیس افراد سوار تھے جبکہ دونوں پائلٹ بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔ صوبائی کونسل کے ایک رکن خیر محمد نور زئی کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں صوبائی کونسل کے سربراہ فرید احمد بختاور اسی کونسل کی خاتون رکن جمیلہ امینی اور مغربی افغانستان کے ڈپٹی کور کمانڈر نعمت اللہ خلیل بھی شامل ہیں۔
افغانستان کے جن علاقوں میں طالبان کی موجودگی زیادہ ہے، ان علاقوں میں اعلیٰ حکومتی اہلکار زیادہ تر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی سفر کرتے ہیں۔ رواں برس ستمبر میں بھی فراہ صوبے میں ایک فوجی ہیلی کاپٹر ایمرجنسی لینڈنگ کے دوران تباہ ہو گیا تھا۔ اُس ہیلی کاپٹر میں ہتھیاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور کم از کم چار افراد مارے گئے تھے۔
رواں ماہ کے آغاز پر شمالی صوبے بلخ میں بھی ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں بارہ افراد مارے گئے تھے اور ہلاک ہونے والوں میں دو یوکرائنی بھی شامل تھے۔
مغربی ممالک افغانستان کی فضائیہ کو مضبوط بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں کیوں کہ طالبان کے دور میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں یہ مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نہ صرف افغان پائلٹوں کو تربیت فراہم کر رہا ہے بلکہ افغانستان کی فضائیہ کو جدید بنانے کو عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
ا ا / ا ب ا (نیوز ایجنسیاں)
افغان پولیس کی تربیت
افغانستان سے بین الاقوامی امدادی افواج ایساف کے انخلاء کے بعد افغان فورسز کو ملک کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں اٹھانا ہوں گی۔اس سلسلے میں یورپی حکومتیں مقامی فورسز کو تربیت فراہم کر رہی ہیں اور برلن حکومت بھی اس میں شامل ہے۔
تصویر: AP
بارہ سال بعد ایک مشن کا اختتام
سن 2002ء ہی سے جرمن حکومت افغان پولیس کی تربیت اور افغانستان کی تعمیرنو میں کابل حکومت کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں جرمن حکومت یورپی پولیس مشن (ای یو پول) کا بھی حصہ ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
مختلف ترجیحات
جرمن ترجیحات میں یہ بھی شامل ہے کہ افغان پولیس ٹرینرز کو تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ خود ملک بھر میں افغان اہلکاروں کی تربیت کر سکیں۔
تصویر: Massoud Hossaini/AFP/Getty Images
چند ہفتوں میں ٹریننگ
بنیادی تربیتی کورس آٹھ ہفتوں میں مکمل کروا دیا جاتا ہے۔ گرفتاری کس طرح عمل میں لانی ہے؟ ہتھیاروں کا استعمال اور آئینی طریقے سے تفتیش کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ یہ سب کچھ اسی بنیادی ٹریننگ کا حصہ ہے۔
تصویر: Michael Kappeler/AFP/Getty Images
تنقید اور شک
کیا واقعی افغان فورسز بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو جائیں گی، اس پر شک کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ افغان پولیس بدعنوانی کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/Noorullah Shirzada
چار مقامات
افغان اہلکاروں کو چار شہروں میں تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ ان میں فیض آباد، مزارِ شریف، قندوز اور کابل شامل ہیں۔ فیض آباد اور قندوز کی سکیورٹی پہلے ہی افغانیوں کے حوالے کر دی گئی ہے۔
تصویر: picture alliance / JOKER
تمام شعبوں میں تربیت
پولیس کی تعلیم و تربیت کے علاوہ دیگر فنّی شعبوں میں بھی ٹریننگ فراہم کی جاتی ہے تاکہ سن 2014ء کے بعد پولیس کے لیے بنائی گئی عمارتوں کی دیکھ بھال بھی کی جا سکے۔
تصویر: dapd
خواتین پولیس اہلکاروں کی ضرورت
افغانستان میں خواتین پولیس اہلکاروں کی اشد ضرورت ہے۔ گھروں کی تلاشی کے دوران خاص طور پر خواتین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں جرمن فوج خواتین کو خصوصی کورسز کروا رہی ہے۔
تصویر: DW
خطرناک ملازمت
افغانستان میں پولیس کی ملازمت کس حد تک خطرناک ہے، اس کا اندازہ گزشتہ برس ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برس صرف مارچ سے جولائی کے مابین 2750 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔