1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان فوج اور طالبان کے درمیان جھڑپیں، 151 طالبان کی ہلاکت کا دعویٰ

عابد حسین24 دسمبر 2014

پاکستان کی سرحد کے ساتھ ملحقہ افراتفری کے شکار مشرقی افغان صوبے میں افغان فوج اور طالبان جنگجُوؤں کے درمیان گزشتہ بارہ روز سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ افغان حکام نے 151 طالبان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

تصویر: Getty Images/Scott Olso

مشرقی افغان صوبے کنڑ کی پولیس کے سربراہ جنرل عبدالحبیب سید خیلی نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف افغان فوج اور دوسرے سکیورٹی اہلکار گزشتہ بارہ دنوں سے مختلف مقامات پر کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کنڑ صوبے کے گورنر شجاع اُلملک جلالا پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ اُن کے صوبے کے ضلع دانگام کے دور دراز کے علاقوں پر پندرہ سو افغان طالبان نے حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جنرل عبدالحبیب سید خیلی نے اپنے سکیورٹی و انٹیلیجنس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستانی طالبان اور لشکر طیبہ کے عسکریت پسند بھی دانگام میں افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف مسلح محاذ آرائی میں شریک ہیں۔

کنڑ صوبے کے پولیس چیف کے مطابق بارہ روز پر پھیلی اِن جھڑپوں میں 151 طالبان عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ طالبان نے اتنی بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی تردید کی ہے۔ سید خیلی کے مطابق ہلاک شدگان میں 17 غیر ملکی شامل ہیں اور اِس طرح اُن کے سابقہ دعووں کی تصدیق ہوئی ہے کہ افغان سرزمین پر مسلح خلفشار میں دوسرے ملکوں کے عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔ سید خیلی نے یہ نہیں بتایا کہ سترہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسند کن ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دانگام کا ضلع پاکستانی سرحد سے صرف ڈھائی کلو میٹر کی دوری پر ہے۔

افغان صوبے کنڑ میں امریکی و افغان فوجی مشترکہ آپریشن بھی کرتے رہے ہیںتصویر: AP

جنرل عبدالحبیب سید خیلی کے مطابق دانگام کا ضلع پاکستانی سرحد کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے اطراف کے عسکریت پسندوں کے لیے سرحد عبور کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان سے جنگجُو بڑی آسانی سے دانگام میں داخل ہو کر مقامی عسکریت پسندوں کی مدد میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ سید خیلی نے یہ بھی بتایا کہ موجودہ بڑا آپریشن انتہائی احتیاط سے جاری ہے اور اِس کی بنیادی وجہ سویلین آبادیوں کو محفوظ رکھنا ہے کیونکہ مقامی سویلین بھی اب عسکریت پسندوں کے خلاف افغان فوج کی معاونت کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں ایک دوسرے کے جہادی پناہ لیتے رہتے ہیں، جیسے طالبان کے اہم لیڈران ایک وقت میں پاکستانی شہر کوئٹہ میں براجمان رہ چکے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے حکام اِن دنوں طالبان عسکریت پسندوں کو کنٹرول کرنے کے معاملات کو آگے بڑھائے ہوئے ہیں۔ سولہ دسمبر کے سانحہٴ پشاور کے اگلے روز پاکستانی فوج کے سربراہ نے کابل کا دورہ کیا تھا۔ کل پیر کے روز افغانستان کی فوج کے سربراہ جنرل شیر محمد کریمی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں تھے۔ افغانستان میں امریکی اورنیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل جان کیمبل بھی افغان جنرل کے ہمراہ اسلام آباد پہنچے ہوئے تھے۔ دونوں جرنیلوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی اور اِس میں بھی طالبان کی سرکوبی اور عسکری تعاون مرکزی موضوع رہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں