1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان فورسز کا پہلا کام طالبان کی پیش قدمی روکنا، لائڈ آسٹن

25 جولائی 2021

امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن کے مطابق افغانستان میں حکومتی دستوں کا پہلا کام طالبان عسکریت پسندوں کی پیش قدمی روکنا ہے اور طالبان کی یلغار کی رفتار میں کمی کے بعد ہی ان کے زیر قبضہ علاقے آزاد کرانے کی کوشش کی جانا چاہیے۔

Afghan security forces
افغان صوبے ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کے مضافات میں تعینات ملکی سکیورٹی فورسز کے ارکانتصویر: Sifatullah Zahidi/AFP

امریکی ریاست الاسکا میں ملکی فضائیہ کی آئلسن ایئر بیس پر ہفتہ چوبیس جولائی کی شام وزیر دفاع آسٹن نے کہا کہ افغان حکومتی دستے اسٹریٹیجک حوالے سے ملک کے اہم حصوں میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوششوں میں ہیں۔ ان کے مطابق، ''طالبان کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کرانے کی کوششوں سے قبل افغان سکیورٹی فورسز کو یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ وہ طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے پیش قدمی کا زور توڑ دیں۔‘‘

افغانستان اور وسطی ایشیا میں امریکی حکمت عملی

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی وزیر دفاع نے آئلسن ایئر بیس کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا، ''وہ (افغان حکومتی دستے) ملک کے اہم اور زیادہ آبادی والے علاقوں کے ارد گرد اپنی پوزیشن مستحکم  بنانے میں مصروف ہیں۔‘‘

کیا افغان دستے طالبان کو روک پائیں گے؟

افغانستان میں تقریباﹰ بیس سال تک تعیناتی کے بعد وہاں سے امریکی فوج کا انخلا صدر جو بائیڈن کے حکم پر 31 اگست کو مکمل ہو جائے گا۔ لیکن امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی انخلا کے بعد کیا کابل حکومت کی فورسز طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی روک سکیں گی؟

موجودہ وزیر دفاع اور سابق فوجی جرنیل لائڈ آسٹن امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر رہ چکے ہیںتصویر: Yasser Al-Zayyat/AFP/Getty Images

اس بارے میں امریکی وزیر دفاع نے کہا، ''آیا افغان سکیورٹی دستے طالبان کی پیش قدمی کو روک پائیں گے یا نہیں، میری رائے میں افغان دستوں کے لیے کرنے کا پہلا کام تو یہ ہے کہ وہ (طالبان کی) پیش قدمی کی رفتار میں کمی کو یقینی بنائیں۔‘‘

'ہم دیکھیں گے کہ ہوتا کیا ہے‘

امریکی وزیر دفاع نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ افغان دستوں کے پاس یہ اہلیت ہے کہ وہ طالبان کو روکنے کے عمل میں پیش رفت کا مظاہرہ کریں۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا، ''مگر ہم دیکھیں گے کہ ہوتا کیا ہے؟‘‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سوشل میڈیا پر جنگ میں شدت

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی میں گزشتہ چند ماہ کے دوران کافی تیزی آ چکی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے چند روز قبل ہی کہا تھا کہ اس کے اندازوں کے مطابق طالبان اب تک ملک کے کُل تقریباﹰ 400 ضلعی مراکز میں سے نصف سے زائد پر قابض ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ملک کے 34 صوبوں میں سے تقریباﹰ نصف کے دارالحکومتوں پر اپنا دباؤ بھی بڑھاتے جا رہے ہیں۔

اکتیس صوبوں میں رات کا کرفیو

اسی بدلتی ہوئی اسٹریٹیجک صورت حال کے تناظر میں کابل میں وزرات داخلہ نے کل ہفتہ چوبیس جولائی کے روز اعلان کیا تھا کہ حکومت نے ملک کے کُل 34 صوبوں میں سے 31 میں رات کا کرفیو نافذکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کرفیو روزانہ رات دس بجے سے لے کر صبح چار بجے تک نافذ رہا کرے گا۔

طالبان کی پیش قدمی کے تناظر میں تاجکستان میں بڑی جنگی مشقیں

تقریباﹰ پورے ملک میں رات کو کرفیو لگانے کے اس فیصلے پر عمل درآمد 24 اور 25 جولائی کی درمیانی شب شروع ہو گیا۔

وزارت داخلہ کے مطابق 'طالبان کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے‘ اس شبینہ کرفیو کے نفاذ سے جن صرف تین صوبوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے، وہ کابل، پنج شیر اور ننگرہار ہیں۔

م م / ع س (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں