افغان فورسز کی بڑی کارروائی، موسیٰ قلعہ پر دوبارہ قبضہ
30 اگست 2015افغان دارالحکومت کابل سے اتوار تیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہلمند کا اسٹریٹیجک طور پر یہ بہت اہم ضلع اب دوبارہ ملکی سکیورٹی دستوں کے کنٹرول میں آ گیا ہے۔
ہلمند کے گورنر کے ترجمان عمر زواق نے آج اتوار کے روز کہا، ’’موسیٰ قلعہ پر دوبارہ قبضے کے لیے افغان حکومتی دستوں نے اپنے ایک بڑے آپریشن کا آغاز جمعہ اٹھائیس اگست کے روز کیا تھا۔ اس کارروائی کے دوران عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں میں متعدد جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس لڑائی میں چھ سرکاری فوجی بھی مارے گئے جبکہ کم از کم چودہ دیگر زخمی بھی ہوئے۔‘‘
اس سے قبل طالبان عسکریت پسندوں نے موسیٰ قلعہ ہی سے ملکی سکیورٹی دستوں پر قریب ایک ہفتے تک کئی ہلاکت خیز حملے کرنے کے بعد اس پر بدھ چھبیس اگست کے روز قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن طالبان باغی اس ضلع پر اپنا کنٹرول محض تین چار دنوں تک ہی برقرار رکھ سکے اور جمعے کے روز اپنے آپریشن کا آغاز کرنے کے بعد سے اب افغان فورسز وہاں قابض ہو چکی ہیں اور طالبان جنگجوؤں کو اس ضلع سے باہر دھکیل دیا گیا ہے۔
صوبائی گورنر کے ترجمان عمر زواق کے مطابق موسیٰ قلعہ میں طالبان زیادہ دیر تک اس لیے اپنے قدم نہ جما سکے کہ ان کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران ملکی دستوں کو نیٹو کے جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل رہی۔
اسی دوران مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بھی آج بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران ملکی سکیورٹی فورسز کی مدد کرتے ہوئے ہلمند کے اس ضلع میں طالبان شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر کم از کم تیرہ فضائی حملے کیے گئے۔
افغانستان کا یہ جنوبی صوبہ نہ صرف طالبان کی عسکری طاقت کا ایک بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے بلکہ ملک میں ہیروئن کی پیداوار کا بہت بڑا حصہ بھی اسی صوبے میں پوست کی وسیع تر کاشت کا نتیجہ ہوتا ہے۔
افغان طالبان ہر سال سردیوں کے اختتام اور موسم بہار کے آغاز پر ملکی اور غیر ملکی فورسز کے خلاف جو بڑے حملے شروع کر دیتے ہیں، وہ اس سال بھی کیے گئے، جو ابھی تک جاری ہیں۔ اس دوران جن صوبوں میں خونریز عسکری کارروائیاں اور مسلسل جھڑپیں اب تک دیکھنے میں آ رہی ہیں، ان میں ہلمند بھی شامل ہے۔