1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان فورسز کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین

عنبرین فاطمہ/ نیوز ایجنسیاں
4 اپریل 2018

طالبان کے زیر اثر  افغان صوبے قندوز میں مدرسے پر پیر کے روز ہوئے حملے میں ہلاک ہونے والے درجنوں افراد کی تدفین کر دی گئی ہے۔

Afghanistan Kunduz Opfer nach Luftangriff
تصویر: picture-alliance/AP

حملے میں ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں تاہم افغان حکومت نے اقرار کیا ہے کہ افغان فورسز کے ضلع دشتِ ارچی میں ایک گاؤں پر کیے جانے والے فضائی حملے میں ہلاک ہونے والوں میں عام شہری بھی شامل ہیں۔

افغان صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ، ’’ افغان نیشنل آرمی نے انتہائی واضع طور پر ملنے والی معلومات کی روشنی میں کارروائی کرتے ہوئے ٹھکانے کو تباہ کرنے کی کوشش کی تاکہ کسی بڑی تباہی سے بچا جا سکے۔ لیکن بد قسمتی سے کارروائی کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔‘‘

تصویر: picture-alliance/dpa/C-F. Röhrs

پیر کے روز افغان فورسز کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملے کے حوالے سے مقامی افراد بتاتے ہیں کہ افواج کی جانب سے بمباری دستار بندی کی ایک تقریب پر کی گئی جہاں نوجوان، حافظ قرآن بننے کی خوشی منا رہے تھے۔

دشتِ ارچی کے ایک رہائشی سید جان کے مطابق دو اجتماعی قبریں بنائی گئی ہیں جس میں بمباری کے نتیجے میں مرنے والوں کی تدفین کی گئی ہے۔ ان کے مطابق، ’’ ایک قبر میں 16 جبکہ دوسری میں 21 افراد کی تدفین عمل میں آئی ہے۔ مرنے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے۔ ‘‘

دوسری جانب وزارت دفاع کے ترجمان محمد ردمنیش نے کابل میں ہوئی ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کے پاس فضا سے لی گئی ایک فوٹج ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کمپاؤنڈ میں طالبان جمع ہیں جنہوں نے اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر طالبانی اور پاکستانی پرچم نصب کیے ہوئے ہیں۔ یہاں آدھے سے زیادہ نشانہ بننے والے افراد کے جسموں پر گولیوں کے نشان ہیں جو طالبان کی جانب سے فائر کیے گئے تھے۔

تصویر: DW/F. Zahir

افغان صوبے قندوز میں مدرسے پر فضائی حملہ، درجنوں ہلاکتیں

’آج زندگی بچا لی گئی تو کل خود کش حملے ميں ہلاک ہو سکتا ہوں‘

افغان وزارت دفاع کے ایک اور سینئر حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 35 طالبان ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ حکومت نے ایسے 13 افغان کمانڈروں کے ناموں کی فہرست بھی جاری کی ہے جو اس حملے میں مارے گئے۔

اس واقعے کے بعد افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مشن نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ان کے تفتیش کار حملے کا نشانہ بننے والے علاقے میں موجود ہیں اور شہریوں کو ہونے والے ’سنجیدہ نوعیت کے نقصان کی پریشان کن رپورٹس‘ کا جائزہ لیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں