افغان خواتین غیرمعمولی جبر کا شکار: معاشرہ مزید غربت کی طرف
19 اکتوبر 2021افغان سول سوسائٹی کے ماہرین طالبان کا بہادری سے مقابلہ کرنے والی خواتین کی مدد اور حمایت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس پسماندہ معاشرے کی سول سوسائٹی کی آگاہی و آشنائی رکھنے والے افراد مغربی ممالک سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ایسی بہادر افغان خواتین کی ہر ممکن مدد و حمایت کریں۔
عالمی فٹ بال ایسو سی ایشن فیفا کی ویب سائیٹ پر گزشتہ جمعے کو دیے گئے ایک بیان کے مطابق فٹ بال کھلاڑیوں پر مشتمل افغان خاندانوں کے قریب 100 اراکین جن میں خواتین بھی شامل ہیں انتہائی پیچیدہ مذاکرات کے بعد قطر کے لیے پرواز کرنے میں کامیاب رہے۔ فیفا کے بیان میں اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی کہ ان افراد کو ان کے آبائی ملک میں ' سب سے زیادہ خطرات‘ لاحق تھے۔ دریں اثناء افغانستان ویمن فٹ بال جونیئر ٹیم کی ارکان بھی ملک چھوڑ کر پرتگال چلی گئی ہیں اور افغانستان کی سائیکل سوار خواتین بھی عالمی سائیکلنگ ایسو سی ایشن UCI کے مدد و تعاون سے ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
طالبان کا ظاہر شاہ دور کا آئین عارضی طور پر اپنانے کا اعلان
خواتین کی بے دخلی، غربت کا فروغ
جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں قائم 'افغان ویمن ایسو سی ایشن‘ کی صدر نادیہ ناشیر کریم کا بھی یہ ماننا ہے کہ افغانستان سے زیادہ سے زیادہ خواتین کا ملک چھوڑ دینا اور ان کی ملک سے بے دخلی تباہ حال افغان معاشرے کی غربت میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔ نادیہ کی ایسوسی ایشن افغانستان میں کُل 15 مختلف پروجیکٹس چلا رہی ہے۔
ان میں اسکول، کلینکس، رہائشی منصوبے اور دستکاری کے ہنر جیسے ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔ان 15 منصوبوں میں سے 12 پر اب بھی کام ہو رہا ہے۔ نادیہ ناشیر کریم کے بقول افغانستان میں کچھ خواتین اب بھی بطور پرائمری اسکول ٹیچر اور ہسپتالوں میں ڈاکٹر یا دائی کی حیثیت سے کام کر سکتی ہیں۔ تاہم چند وزارتوں میں اب خواتین کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس کے سبب افغانستان میں ہزاروں خاندان مزید غربت کی دلدل میں دہستے جا رہے ہیں۔ جنگ و شورش زدگی سے تباہ حال اس معاشرے میں غربت عام ہے اور اس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں اشیائے خورد و نوش موجود ہے مگر لا تعداد باشندے انہیں خریدنے کے متحمل نہیں کیونکہ ان کے پاس نہ تو کوئی ملازمت ہے نہ ہی آمدنی کا کوئی ذریعہ۔ اکثر خاندان اپنے گھریلو سامان تک بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
افغانستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی روپوشی پر مجبور
معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ افغان معاشرے میں خواتین کے لیے تعلیم کی رسائی مشکل سے مشکل تر بنا دی گئی ہے۔بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم بالکل ختم کر دی گئی ہے۔ یعنی ایسی یونیورسٹیوں میں جانے والی لڑکیوں کو اپنے مرد طلبا ساتھیوں سے بالکل الگ تھلگ رکھا جاتا ہے اور نادیہ کے بقول، یہ بھی صرف پرائیوٹ یا نجی یونیورسٹیوں میں ممکن ہے۔
بڑے شہروں میں فرار
ایک افغان خاتون آرٹسٹ کبرا خادمی جو پیرس میں آباد ہیں، نے جرمن روزنامے فرانکفرٹر الگمائنے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے افغان خواتین کیساتھ ظلم و جبر اور زیادتیوں کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان افغان نوجوان لڑکیوں کو جبری طور پر شادی کے لیے پاکستانی نوجوانوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ اس طرح ایسے جوڑوں کے ہاں جو لڑکے پیدا ہوں گے وہ طالبان کے نظریاتی حامی ہوں گے اور اس طرح طالبان اپنی آئندہ نسل کو بھرپور طریقے سے اپنے مطابق تربیت دے سکیں گے اور طالبان کی ایک نئی نسل پروان چڑھے گی۔
کابل کے لنڈا بازار کی اجنبی گڑیا
نادیہ ناشیر کریمی کبرا خادمی کے اس مفروضے کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں رکھتیں۔ نادیہ کا تاہم کہنا ہے کہ،'' یہ سب کچھ جن علاقوں میں ہو رہا ہے وہ ہم سے بہت دور دراز ہیں، افغانستان کے بڑے شہروں سے بھی زیادہ دور ہیں۔ یہ شہر، خاص طور سے کابل ہمیشہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے فرار کی اہم ترین جگہ رہا ہے۔
نادیہ کہتی ہیں۔'' ہم فی الحال مختلف افغان صوبوں سے انہیں منتقل کر رہے ہیں، ان کی مالی امداد کر رہے ہیں تاکہ یہ کھانے پینے کی اشیا خرید سکیں۔‘‘
افغانستان: میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کا قتل
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے بڑے شہروں میں بہت سی خواتین کی زندگی ان کے لیے ڈراؤنا خواب بن کر رہ گئی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ، '' عورتیں طالبان اور ان پر لگائی گئی پابندیوں سے خوفزدہ ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ان کی نقل و حرکت، کام اور تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ان سے مکمل طور پر چھن جائے گی اور بس ایک خواب بن کر رہ جائے گی، ان خواتین نے اس سب کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں جو اب شاید ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔‘‘
کیرسٹن کنیپ/ ک م/ ع ح