افغان لڑکیوں کے اسکول کھولے جائیں، سوشل میڈیا پر نئی مہم
15 جولائی 2022
سوشل میڈیا کی ایک مہم کے تحت افغان طالبان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ بچیوں کی تعلیم کی راہ میں رخنے مت ڈالیں۔ مقامی اور عالمی سطح پر کیے جانے والے بارہا مطالبات کے باوجود طالبان اس تناظر میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اشتہار
سماجی رابطوں کے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹر پر LetAfghanGirlsLearn# ٹرینڈ کر رہا ہے۔ اس مہم کے تحت افغانستان کے علاوہ عالمی سطح پر ہزاروں صارفین مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغان طالبان بچیوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کی راہ ہموار کریں۔
گزشتہ برس وسط اگست میں افغانستان پر قبضہ کرنے والے طالبان نے ملک میں ایک مرتبہ پھر اسلامی نظام نفاذ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ان سخت شرعی قوانین کے تحت یہ گروہ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں۔
البتہ کئی مسلم حلقوں کے مطابق طالبان اسلامی قوانین کی انتہائی سخت اور گمراہ کن تشریح کرتے ہوئے خواتین کو تعلیمی اداروں میں جانے سے روک رہے ہیں۔
طالبان نے ملک کا اقتدار سنبھالے کے بعد آہستہ آہستہ خواتین کی آزادیوں کو محدود بنا دیا ہے جبکہ خدشات ہیں کہ مستقبل میں اس ملک میں خواتین پر عائد پابندیاں مزید سخت کر دی جائیں گی۔
انتہائی سنگین نتائج کا انتباہ
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اس وسطی ایشیائی ملک میں لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جانے پر پابندی کے نتیجے میں ان بچیوں، ان کے گھرانوں اور ملک کے مستقبل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
انتہا پسندی نے قبائلی خواتین کو کیسے متاثر کیا؟
افغان سرحد سے متصل پاکستانی ضلع مہمند کی رہائشی پچپن سالہ خاتون بصوالیحہ جنگجوؤں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اپنے شوہر اور بیٹے کو کھو چکی ہیں۔ اب خطرہ ہے کہ طالبان ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں قدم جما سکتے ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سخت اور کٹھن زندگی
پاکستانی قبائلی علاقوں کی خواتین کے لیے زندگی مشکل ہی ہوتی ہے۔ ضلع مہمند کے گاؤں غلنی کی باسی پچپن سالہ بصوالیحہ کی زندگی اس وقت مزید اجیرن ہو گئی، جب سن 2009 میں اس کا بیٹا اور ایک برس بعد اس کا شوہر جنگجوؤں کے حملے میں ہلاک ہو گئے۔ سن2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا یہ علاقہ بھی طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
ہر طرف سے حملے
بصوالیحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کا تئیس سالہ بیٹا مقامی امن کمیٹی کے ایما پر ہلاک کیا گیا۔ طالبان مخالف مقامی جنگجو گروپ کو شک ہو گیا تھا کہ وہ طالبان کو تعاون فراہم کر رہا تھا۔ پاکستانی فوج کے عسکری آپریشن کے بعد اس علاقے میں قیام امن کی امید ہوئی تھی لیکن اب افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے باعث اس سرحدی علاقے میں طالبان کی واپسی کا خطرہ ہے۔
تصویر: dapd
پرتشدد دور
بصوالیحہ کا شوہر عبدالغفران چھ دسمبر سن2010 کو ایک سرکاری عمارت میں ہوئے دوہرے خود کش حملے میں مارا گیا تھا۔ وہ وہاں اپنے بیٹے کی ہلاکت کے لیے سرکاری طور پر ملنے والی امدادی رقم لینے کی خاطر گیا تھا۔ بصوالیحہ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں کسی محرم مرد کی عدم موجودگی عورت کی زندگی انتہائی مشکل بنا دیتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
امید نہیں ٹوٹی
اب بصوالیحہ انتہائی مشکل سے اپنا گزارہ کرتی ہیں۔ ان کے گاؤں میں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔ وہاں گیس، بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی میں بھی مسائل ہیں۔ تاہم بصوالیحہ اب تک پرعزم ہیں۔ انہوں نے سرکاری امداد لینا بھی چھوڑ دی تھی، جو دس ہزار روپے ماہانا بنتی تھی۔ تاہم سن 2014 میں حکومت نے یہ امدادی سلسلہ بھی روک دیا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سلائی کڑھائی سے آمدنی
بصوالیحہ چاہتی ہیں کہ ان کے بچیاں اچھی تعلیم حاصل کریں۔ ڈی ڈؓبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ خود کو بے کار تصور کرنے لگیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس معاشرے میں اپنی بقا کھو دیں گی۔ اگرچہ وہ سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہیں لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے وہ مہمند ایجنسی کی کسی بھی دکان پر بغیر مرد کے نہیں جا سکتیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
محرم مرد کے بغیر کچھ نہیں
بصوالیحہ کے بقول شوہر کی موت کے بعد وہ تندور چلانے لگیں جہاں ان کی چھوٹی بیٹیاں روٹیاں فروخت کرتی تھیں لیکن اب وہ بالغ ہو چکی ہیں اور اس علاقے میں لڑکیاں اس طرح آزادانہ یہ کام نہیں کر سکتیں۔ اس لیے انہوں نے اب یہ کام چھوڑ کر سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا۔ محرم مرد کی عدم موجودگی کے باعث وہ بازار میں یہ مصنوعات فروخت نہیں کر سکتیں، اس لیے وہ انہیں مقامی مردوں کو کم داموں پر فروخت کرتی ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
مزید تشدد کا خطرہ؟
پاکستان کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں، جو اسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ بصوالیحہ کے برادر نسبتی عبدالرزاق کے بقول انہیں اب تک یاد ہے، جب ان کے بھائی حملوں میں مارے گئے تھے۔ وہ دعا گو ہیں کہ مستقبل میں ایسا دور دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے، جب طالبان کا تشدد عروج پر تھا۔ تاہم ان کے بقول اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
تصویر: Saba Rehman/DW
7 تصاویر1 | 7
بنیاد پرست طالبان نے اپنے پہلے دور اقتدار سن 1996 تا 2001ء خواتین پر متعدد اقسام کی پابندیاں عائد کر دی تھیں، جن میں ان کے تعلیمی اداروں میں جانے پر روک کے علاوہ گھر سے باہر نکلنے پر ایسا برقع پہنے کی تاکید کی بھی شامل تھی، جس سے وہ سر تا پیر دکھائی نہ دیں۔ یوں افغان خواتین گھروں میں پابند ہو کر ہی رہ گئی تھیں۔
اگرچہ گزشتہ برس ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ وہ بدل چکے ہیں اور خواتین کے بارے میں اپنے گزشتہ مؤقف میں تبدیلی لے آئے ہیں تاہم بظاہر ایسا کچھ محسوس نہیں ہو رہا ہے۔ طالبان کی نئی نام نہاد حکومت بھی لڑکیوں اور خواتین کی آزادیوں پر غیر محسوس طریقے سے قدغنیں لگانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا ہوا
ٹوئٹر پر #LetAfghanGirlsLearn مقبول ہوتا جا رہا ہے، جس میں طالبان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں جانے سے مت روکیں اور ان کے لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھول دی جائیں۔
اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ وہ بچیوں کی تعلیم کی بحالی کی خاطر ایک نیا طریقہ کار وضع کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن متعدد وعدوں کے باوجود چھٹی جماعت کے بعد بچیاں کلاس روم میں نئے داخلے سے محروم ہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت دینے پر طالبان کی اعلیٰ قیادت میں اختلاف ہے۔
افغانستان کے آزاد ہیومن رائٹس کمیشن کی سابق سربراہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ بچیوں پر ان پابندیوں کی وجہ سے وہ ہر روز کڑھتی ہیں۔ ان کے بقول وہ اس وقت ہی مطمئن ہوں گی، جب یہ صورت بدل جائے گی۔
شہزاد اکبر نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ باہمت و با صلاحیت افغان خواتین کو مواقع نہیں ملیں گے تو وہ ملک کی ترقی میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گی۔ ان کے مطابق لڑکیوں پر اس طرح کی پابندیاں ان کی جبری شادیوں اور گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافے کی وجہ بن جائیں گی۔
اشتہار
تعلیمی اداروں کی بندش نفسیاتی مسائل کا باعث بھی
کابل کی رہائشی شریفہ نویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ طالبان کی طرف سے تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے ہزاروں دیگر بچیوں کی طرح اب وہ بھی اسکول جانے سے محروم ہو چکی ہیں۔
شریفہ (سکیورٹی خطرات کی وجہ سے نام تبدیل کر دیا گیا ہے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب میں اسکول کی کتابیں دیکھتی ہوں اور اپنی کلاس فیلوز سے ملتی ہوں تو اچھے دن یاد آ جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب میں اسکول نہیں جا سکوں گی تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے ساری امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں اور ہمیں اپنا مستقبل تاریک اور درد ناک نظر آ رہا ہے۔‘‘
افغانستان میں بے سہارا معاشرتی زوال
طالبان نے جب سے افغانستان میں حکومت سنبھالی ہے تب سے بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس ملک کی صورت حال ابتر ہے۔ نصف آبادی فاقوں پر مجبور ہے اور حکومت خواتین کے حقوق کو محدود کرنے میں مصروف ہے۔
تصویر: Ahmad Sahel Arman/AFP
بہت کم خوراک
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی شدید کمیابی کا سامنا ہے۔ لوگ بھوک اور خوراک کی دستیابی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کو اب چین سے بھی امدادی خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ترجمان کے مطابق افغانستان میں بھوک کی جو سنگین صورت حال ہے، اس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ ترجمان نے بھوک سے مارے افراد کی تعداد بیس ملین کے قریب بتائی ہے۔
تصویر: Saifurahman Safi/Xinhua/IMAGO
خشک سالی اور اقتصادی بحران
سارے افغانستان میں لوگوں شدید خشک سالی اور معاشی بدحالی کی سنگینی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک ماہر ایتھنا ویب کا کہنا ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام بائیس ملین افغان افراد کی مدد کر چکا ہے۔ مزید امداد جاری رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کو ایک ارب تیس کروڑ درکار ہیں اور ورلڈ فوڈ پروگرام کا امداد جاری رکھنا اس پر منحصر ہے۔
تصویر: Javed Tanveer/AFP
انتظامی نگرانی سخت سے سخت تر
طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے سابقہ دور کے مقابلے میں اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن بتدریج ان کے اس دعوے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو سخت تر پابندیوں کا سامنا ہے۔ انہیں سیکنڈری اسکولوں تک کی رسائی سے روک دیا گیا ہے۔ تنہا اور بغیر مکمل برقعے کے کوئی عورت گھر سے نہیں نکل سکتی ہیں۔ تصویر میں کابل میں قائم چیک پوسٹ ہے۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
نئے ضوابط کے خلاف احتجاج
افغانستان کے قدرے لبرل علاقوں میں نئے ضوابط کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک احتجاج بینر پر درج ہے، ’’انہیں زندہ مخلوق کے طور پر دیکھا جائے، وہ بھی انسان ہیں، غلام اور قیدی نہیں۔‘‘ ایک احتجاجی بینر پر درج ہے کہ برقعہ میرا حجاب نہیں۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ایک برقعہ، قیمت پندرہ ڈالر
کابل میں ایک برقعہ فروش کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے نئے ضوابط کے اعلان کے بعد برقعے کی قیمتوں میں تیس فیصد اضافہ ہوا ضرور لیکن اب قیمتیں واپس آتی جا رہی ہیں لیکن ان کی فروخت کم ہے۔ اس دوکاندار کے مطابق طالبان کے مطابق برقعہ عورت کے لیے بہتر ہے لیکن یہ کسی عورت کا آخری انتخاب ہوتا ہے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ریسٹورانٹ میں اکھٹے آمد پر پابندی
مغربی افغانستان میں طالبان کے معیار کے تناظر میں قندھار کو لبرل خیال کیا جاتا ہے، وہاں مرد اور عورتیں ایک ساتھ کسی ریسٹورانٹ میں اکھٹے جانے کی اجازت نہیں رکھتے۔ ایک ریسٹورانٹ کے مینیجر سیف اللہ نے اس نئے حکم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حکم کے پابند ہیں حالانکہ اس کا ان کے کاروبار پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سیف اللہ کے مطابق اگر پابندی برقرار رہی تو ملازمین کی تعداد کو کم کر دیا جائے گا۔
تصویر: Mohsen Karimi/AFP
بین الاقوامی برادری کا ردِ عمل
طالبان کے نئے ضوابط کے حوالے سے عالمی سماجی حلقوں نے بااثر بین الاقوامی کمیونٹی سے سخت ردعمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ نے ان ضوابط کے نفاذ کی مذمت کی ہے اور طالبان سے ان کو ختم کرنے کے فوری اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
7 تصاویر1 | 7
کریمہ (سکیورٹی خطرات کی وجہ سے نام تبدیل کر دیا گیا ہے) دو بچیوں اور ایک لڑکے کی ماں ہیں۔ کابل کی رہائشی اس خاتون کا کہنا ہے کہ اسکولوں کی بندش کی وجہ سے وہ بالخصوص اپنی بیٹیوں کی نفسیاتی صحت کے بارے میں پریشان ہیں۔
کریمہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''اسکولوں کی بندش نے صرف بچوں پر ہی نہیں بلکہ مجھ پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ اب مجھے بھی کوئی وقفہ نہیں ملتا کہ میں باہر جا سکوں یا کوئی کام کر سکوں۔ مجھے ان بچوں کے ساتھ گھر پر ہی رہنا پڑتا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ میرے بچے خود کو جسمانی طور پر نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔‘‘
افغان دارالحکومت کابل میں واقع جرمن سفارت خانے نے بھی طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ جنسی تفریق کے بغیر سب کے لیے تعلیم کے یکساں مواقع یقینی بنائے۔ عید کے موقع پر کی گئی ایک ٹوئیٹ میں جرمن سفارت خانے نے کہا کہ وہ افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کی خاطر آواز بلند کرتا رہے گا۔